امریکہ کے شہر نیویارک میں منعقد ہونے والے بین الاقوامی فلم فیسٹول میں تین بڑے ایوارڈ حاصل کرنے والی مختصر دورانیے کی پاکستانی فلم ’دریا کے اِس پار‘ کی پروڈیوسر نگہت اکبر شاہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے چترال میں ذہنی صحت اور خودکشیوں کے بڑھتے رجحان کے خطرے سے آگاہ کرنے کے لیے یہ فلم بنائی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ وہ دو عشروں سے امریکہ رہتی ہیں لیکن ان کا تعلق چترال سے ہے۔
وہ طویل عرصے سے اپنے آبائی علاقے میں خودکشیوں کے بڑھتے رجحان سے متعلق خبریں سنتی آ رہی تھیں۔ لیکن، ان کے مطابق، پہلے تو وہ یہ خبریں دوسروں کے بارے میں ہی سنتی تھیں، مگر 2019 میں وہ جب چترال میں ہی تھیں، تو ان کی ایک کزن نے دریا میں کود کر خودکشی کر لی۔
انہوں نے بتایا کہ اس کے محض دو مہینے بعد ان کے شوہر کے کزن نے بھی خود کو گولی مار کر خودکشی کر لی۔ ان کے بقول، ان واقعات کے بعد انہوں نے اس سلسلے میں بہت سے لوگوں سے بات کی، جن میں حکام اور غیر سرکاری نجی ادارے کے افراد بھی شامل تھے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ انہوں نے بڑے پیمانے پر لوگوں تک اپنا پیغام پہنچانے کے لیے سینما کا انتخاب کیا۔
یاد رہے کہ مختصر دورانیے کی پاکستانی فلم ’دریا کے اِس پار‘ نے نیویارک سٹی انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں بہترین نیریٹیو شارٹ فلم، بہترین ہدایتکار اور بہترین اداکارہ کے ایوارڈ حاصل کیے ہیں۔
فلم کے ہدایتکار شعیب سلطان نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے اس مختصر دورانیے کی فلم میں جن مسائل کی وجوہات پر بات کرنے کی کوشش کی ہے، ان میں گھریلو تشدد، تعلیمی میدان میں ناکامی، دوسروں سے موازنہ، پسند کی شادی میں ناکامی یا پھر علاقے میں مواقع کی کمی ہونا شامل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ مسائل خصوصاً خواتین کے لیے کتنے پیچیدہ ہیں، ہم نے اس فلم میں اس پر بات کرنے کی کوشش کی ہے۔
شعیب سلطان نے فلم کے دوران پیش آنے والے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ یہ فلم چترال میں بنی ہے جہاں فلم بندی کے لیے وسائل موجود نہیں تھے۔ اس سلسلے میں کاسٹ سے لے کر تمام ساز و سامان لاہور سے لے جانا پڑا۔
اس کے علاوہ مقامی لوگ بھی فلم بندی کے بارے میں شعور نہیں رکھتے، تو انہیں بھی اس بارے میں سمجھانا پڑا۔ انہوں نے مقامی آبادی اور ضلعی انتظامیہ کی جانب سے تعاون کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس کی وجہ سے فلم بندی میں کافی آسانی ہو گئی تھی۔
اپنی فلم کو ایوارڈ ملنے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ انہیں اس ایوارڈ پر بے حد خوشی ہے۔ ان کے بقول، ایوارڈ ملتے ہیں تو فنکاروں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا، یہ نہ صرف ان کے بلکہ پاکستان کے لیے بہت فخر کا مقام ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس فلم کو اس سے پہلے بھی ایوارڈ مل چکے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس فلم کو دادا صاحب پھالکے فلم فیسٹیول، کلکتہ کلٹ انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں بھی سپیشل مینشن اور سپیشل جیوری ایوارڈز مل چکا ہے۔ اس کے علاوہ سنگاپور میں ہونے والے فلم کارنیول میں سپیشل مینشن ایوارڈ مل چکا ہے۔
فلم کی سکریننگ کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مختصر دورانئے کی فلموں کے لیے سکریننگ کے پلیٹ فارم دستیاب نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسی لیے انہوں نے اس فلم کو دکھانے کے لیے فلمی میلوں کا راستہ چنا۔ اس صورت میں فلم کی پروموشن میں مدد ملتی ہے۔ اس فلم کو ایوارڈ ملنے کی وجہ سے اس کے متعلق ہر جگہ خبر لگ رہی ہے جس کی وجہ سے اس کا پیغام پھیل رہا ہے۔
لیکن ان کا کہنا تھا کہ ان کا منصوبہ ہے کہ اس فلم کی چترال، لاہور اور ملک کے دیگر شہروں میں سپیشل سکریننگ کی جائے، لیکن کرونا وائرس کی وجہ سے ابھی یہ ممکن نہیں ہو سکا۔
نگہت اکبر شاہ نے بتایا کہ وہ چاہتی ہیں کہ چترال میں سکولوں، کالجوں اور دیہاتوں میں اس فلم کی سکریننگ کریں۔ وہ چاہتی ہیں کہ پاکستان میں حکام اور ایسے نجی غیر سرکاری ادارے، جو اس بارے میں کام کر رہے ہیں، وہ یہ فلم دیکھیں اور اس کا پیغام پھیلے۔
نگہت اکبر شاہ کا کہنا تھا کہ وہ چاہتی ہیں کہ چترال میں ذہنی صحت سے متعلق ادارے ہوں، انفراسٹرکچر ہو، تاکہ جب لوگوں کو ایسے مسائل کا سامنا کرنا پڑے تو ان کی مدد کے لیے کوئی موجود ہو۔