امریکہ دنیا میں چینی مصنوعات کی ایک بڑی منڈی ہے ۔ لیکن 2010ء میں کئی ایسے واقعات پیش آئے جس سے دنیا کی ان دو بڑی معیشتوں کو کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں اتارچڑھاؤ کے معاشی اثرات کا سلسلہ نئے سال میں بھی جاری رہنے کا امکان ہے۔
2010ء کا آغاز ، بیجنگ کے واشنگٹن سے فوجی تعلقات توڑنے سے ہواتھا اور پھر اس کشیدگی کا دائرہ اور انٹر نیٹ جائنٹ گوگل تک پھیل گیا اور اس نے چین پر یہ الزام عائد کیا کہ وہ اس کی سائٹس کو انتہائی جدید نوعیت کے سائبر حملوں کا نشانہ بنارہاہے ۔
فروری کے مہینے میں صدر براک اوباما نے جلا وطن تبتی رہنما دلائی لاما سے ملاقات کی ، جس پر چین کی طرف سے شدیداحتجاج کیا گیا اور یہ خدشہ پیدا ہو گیا کہ شاید چینی صدر ہوجن تاؤ صدر اوباما کی جانب سے اپریل 2010 ء میں بلائی جانے والی جوہری سلامتی کانفرنس میں شرکت نہ کریں ۔ لیکن ایسا نہیں ہوا ۔
واشنگٹن کے بروکنز انسٹی ٹیوشن کے چینگ لی امریکہ اور چین کے تعلقات کو خوف اور امید کا امتزاج قرار دیتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ تعلقات خوف اور امید، ترقی اور مشکلات ، بھروسے اور عدم اعتماد کے درمیان آگے بڑھ رہے ہیں۔
امریکہ اور چین نے اس سال متبادل توانائی کے حصول کے لئے ایک دوسرے سے تعاون بھی کیا اور چینی کرنسی اور دیگر تجارتی امور پر ان کے درمیان کشیدگی بھی دیکھنے میں آئی ۔
بونی گلیزر واشنگٹن کے ایک ریسرچ گروپ سی ایس آئی ایس سے وابستہ ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ میرے خیال میں دونوں ملکوں کےلئے تعلقات کو برقرار رکھنا اور اپنے لہجے کو مثبت رکھنا مشکل ثابت ہورہا ہے اور اب جب جنوری میں چین کے صدر امریکہ کےدورے پر آرہے ہیں ، تو یہ چیلنج دونوں ملکوں کے لئے ہے ۔
جنوبی چین کا سمندر ، جسے چین اپنا حصہ قرار دیتا ہے ، اس سال ایک اور تنازع کی وجہ بنا ۔ امریکہ نے اس سال چین اور اس کے جنوب ایشیائی آسیان پڑوسی ملکوں کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کی تھی ، لیکن چین نے اسے مسترد کر دیا ۔
اس کے ایک مہینے بعد بیجنگ نے اعلان کیا کہ اس نے اپنی ایک جنگی آبدوز جنوبی چین کے سمندرکی تہہ میں اتاردی ہے ، اس سے چین ان مٹھی بھر ملکوں میں شامل ہو گیا ، جوایسی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ اس آبدوز کے اتارے جانے کا منظر چین کے سرکاری ٹی وی پر براہ راست دکھایا گیا ۔
بونی گلیزر کہتے ہیں کہ یہ مناظر چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کا ایک اور ثبوت پیش کرتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ حقیقت کہ چین نے ایسی صلاحیت حاصل کر لی ہے ۔ اس کے پڑوسیوں کے لئے یہ ایک اشارہ ہے کہ چین ُان سب کے مقابلے میں زیادہ ترقی یافتہ ہے اور ُانہیں اپنے کسی بھی معاملے پر چین سے بات کرتے ہوئے طاقت کے اس عدم توازن کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے ۔
چین کو دنیا کے اقتصادی بحران سے بھی کوئی نقصان نہیں پہنچا ۔ عالمی سطح پر چین اب اپنی بات منوانے کی پوزیشن میں ہے ۔ بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے چینگ لی کا خیال ہے کہ چین اور امریکہ دونوں کو ایک دوسرے سے خطرہ ہے کیونکہ دونوں ملکوں میں ایک دوسرے کے لئے تحفظات بڑھ رہے ہیں ۔
وہ کہتے ہیں کہ جب آپ چین کو حقیقی خطرہ سمجھتے ہیں ،تو وہ حقیقی خطرہ بن جاتا ہے ۔ جب آپ سمجھتے ہیں کہ امریکی پالیسی چین مخالف ہے ، یعنی امریکہ چین کو محدود کرنا چاہتا ہے ،تو جلد یا بدیر آپ اس پر عمل درآمد کرنا چاہیں گے۔ تو یہ خطرہ تو موجود ہے۔
چینگ لی کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کی قیادت کو چین کے بڑھتے ہوئے اثر کا سامنا کرنا چاہئے ، اگر غلط فہمیاں بڑھ گئیں تو صورتحال بگڑ سکتی ہے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جوں جوں چین کا عالمی کردار بڑھ رہاہے ، اس کی عالمی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ ہورہاہے ۔
سوفی رچرڈ سن ہیومن رائٹس واچ کی ایڈووکیسی ڈائریکٹر ہیں ۔ وہ کہتی ہیں کہ ہم نے چین میں جس قسم کی ترقی دیکھی ہے ، انفراسٹرکچر ، معیشت ، اور کسی حد تک سماجی آزادیوں کی ، وہ ناقابل فراموش ہے اور یقینا چینی حکومت کا واضح انتخاب ہے ۔ لیکن ابھی چین میں بنیادی شہری اور سیاسی حقوق کی صورتحال زیادہ بہتر نہیں ہوئی اور یقینا یہ بھی چینی حکومت کا اپنا انتخاب ہے ۔
جوں جوں چین کا کردار بڑھ رہا ہے ، عالمی اور اندرونی سطح پر اس سے وابستہ توقعات بھی بڑھ رہی ہیں ۔ جس کا مطلب ماہرین کے مطابق یہ ہے کہ چین کے پاس ان توقعات پر پورا اترنے یا انہیں نظر انداز کرنے کے سوا کوئی تیسرا راستہ موجود نہیں ۔