چین کی طرف سے ایغور مسلمانوں سے روا رکھے جانے والے مبینہ ’متنازع سلوک‘ کی حمایت کرنے والے ایک امام مسجد کو سنکیانگ کے علاقے میں خنجر مار کر ہلاک کر دیا گیا۔
مقامی عہدیداروں اور عام شہریوں نے بتایا کہ 74 سالہ امام مسجد جامے طاہر پر بدھ کے وقت اس وقت حملہ کیا گیا جب وہ کاشغر کی ایک قدیم اد کاہ مسجد میں تھے۔
طاہر چین کی نیشنل پیپلز کانگرس کے رکن تھے۔ وہ سنکیانگ میں مبینہ ’’تخریب کاری اور علیحدگی‘‘ کی کارروائیوں کی اکثر مذمت کرتے رہے۔ اس علاقے میں گزشتہ سال بدامنی کی وجہ سے سینکڑوں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
ایغور برادری کے کئی لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ تشدد کی وجہ حکومت کی طرف سے مبینہ طور پر مسلمانوں پر عائد بعض پابندیاں ہیں۔
بیجنگ ایغور آبادی کے ساتھ روا رکھے جانے والے مبینہ سلوک سے انکاری ہے اور قتل کیے گئے امام مسجد جامے طاہر بھی اس سے اتفاق کرتے تھے۔
امام مسجد طاہر نے 2009ء میں چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ژنہوا کو بتایا کہ مسلماںوں کے ’’قانونی مذہبی عقیدے کو مکمل تحفظ حاصل ہے‘‘۔
حکومت نے طاہر کے قتل پر ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
قتل کا یہ واقعہ چینی پولیس اور چاقوؤں سے مسلح بلوائیوں کے درمیان کاشغر کے باہر دو دن پہلے ہونے والی لڑائی کے بعد ہوا، جس میں کئی افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
امریکہ میں موجود ایغور برادری کے لوگوں کا کہنا ہے کہ تشدد اس وقت شروع ہوا جب پولیس نے ماہ رمضان میں روا رکھے جانے والی پابندیوں کے خلاف مظاہرہ کرنے والے ایک گروپ کو نشانہ بنایا۔
جب کہ خبر رساں ادارے ژنہوا نے بتایا کہ ابتدائی تفتیش سے یہ معلوم ہوا ہے کہ بلوائیوں نے پہلے ہی سے ’دہشت گرد حملے‘ کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔