چین میں ایک منفرد انداز کی فائیو-جی خود کار مائیکرو بس متعارف کرائی جا رہی ہے جس میں عام لوگ پہلے سے نشست بک کرا کر سفر کرسکیں گے۔
مائیکرو بس کی منفرد بات یہ ہے کہ اسے چلانے کے لیے کسی ڈرائیور کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ یہ خودکار نظام کے تحت چلے گی۔
بس کے اجرا کے لیے رواں ماہ کی 20 تاریخ مقرر کی گئی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ 20 اکتوبر کو چھٹی بین الاقوامی انٹرنیٹ کانفرنس ہونے جا رہی ہے۔ اسی لیے اس روز بس کو عالمی سطح پر متعارف کرایا جائے گا۔
فائیو-جی مائیکرو بس ماس پروڈکشن گاڑی ہے جسے اچھی طرح جانچنے کی غرض سے چین کے شہر ووزہن کی سڑکوں پر ٹریفک کے رش میں بھی تیزی سے چلایا جا چکا ہے۔ ٹریفک کے دباؤ کے باوجود یہ اپنے امتحان میں کامیاب رہی۔
مائیکروبس دیکھنے میں عام بس جیسی ہی ہے تاہم اس میں بڑی تعداد میں سنسرز لگے ہیں۔
فائیو جی آٹو میٹک مائیکرو بس 200 میٹر کے اندر نہ صرف پیدل چلنے والوں اور گاڑیاں جیسی رکاوٹوں کی نشاندہی کر سکتی ہے بلکہ وہ ایک کلومیٹر بعد آنے والی سڑک سے متعلق معلومات بھی فراہم کر سکتی ہے اور ایسا کلاؤڈ کولابریشن انٹیلی جنٹ سسٹمز کے ذریعے ممکن ہو سکا ہے۔
مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق دوران سفر لین کی تبدیلی، رفتار دھیمی کرنا، بریک لگانا، رفتار بڑھانا اور اسی قسم کے دیگر کام انجام دینا اس کے لیے کوئی مشکل نہیں اور یہ سب کام سنسرز کی بدولت خود کار نظام کے تحت انجام پاتے ہیں۔
عالمی انٹرنیٹ کانفرنس کے موقع پر جب اس کا اجرا ہوگا اس وقت فائیو جی بس چار کلومیٹر کا فاصلہ طے کرے گی جبکہ 10 نشستوں والی یہی خود کار بسیں شہر سے پنڈال تک شٹل سروس کے طور پر فراہم کی جائیں گی۔
بس میں سفر کے لیے عام لوگ ایچ فائیو لنک کے ذریعے سیٹ بک کرا سکتے ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ ان بسوں سے فائیو جی کی صنعت کو ناصرف ترقی کا ایک بڑا اورشاندار موقع ملے گا بلکہ سیاحت کی صنعت بھی فروغ پائے گی۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ پروجیکٹ چین کے پہلے ڈیجیٹل اکنامی ٹاؤن کے لیے مثالی پروجیکٹ بھی ثابت ہوگا۔