چین کے اس اقدام سے کہ وہ جنوبی بحیرہ چین کے ایک متنازع جزیرے میں اپنے فوجی رکھے گا، ایک ایسے علاقے میں جس پر چین، ویتنام، ملائیشیا، تائیوان، برونائی اور فلپائن ، سب کے اپنے اپنے دعوے ہیں، فوجی تصادم کے امکانی خطرے کے بارے میں تشویش میں اضافہ
ہو گیا ہے ۔
چین کا جدید ترین شہر اور فوجی چھاؤنی ایک ایسے جزیرے پر واقع ہے جس کی ملکیت کے ویتنام اور تائیوان بھی دعویدار ہیں۔ یہ تنازع ایک ایسے وقت پیدا ہوا ہے جب ساؤتھ چائنا سی میں معدنیات اور آمد و رفت کے حقوق پر کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے ۔اس نئے شہر سانشا سٹی کے پہلے میئر ژیاؤ جیئی کہتے ہیں’’ چین کی کمیونسٹ پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کا سانشا سٹی کے قیام کا فیصلہ دانشمندانہ اقدام ہے۔ اس طرح ہماری خود مختاری اور سیکورٹی کی حفاظت ہو گی اور ساؤتھ چائنا سی کے وسائل اور اس کی مجموعی ترقی کے تحفظ کو مضبوط بنایا جا سکے گا۔ ‘‘
بیجنگ کا منصوبہ یہ ہے کہ اپنے سانشا کے اڈے کو اس سمندر میں گشت میں اضافے کے لیے استعمال کیا جائے جس پر ویتنام اور فلپائن دونوں کا دعویٰ ہے ۔
فلپائن نے سانشا سٹی کے قیام کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے ۔
فلپائن کے ایوانِ نمائندگان کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی کے رکن والڈن بیلو کہتے ہیں’’یہ ایک ایسا اقدام ہے جس کا جواز صرف یہ ہے کہ چین اس علاقے میں زمین پر قبضہ کرنا چاہتا ہے ، اور اس شہر کو قائم کرنا بالکل نا جائز ہے ۔‘‘
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ سانشا سٹی کے منصوبے پر عمل در آمد سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین اس صورت ِ حال میں کتنا پُر اعتماد ہے ۔
جسٹن لوگان واشنگٹن میں قائم Cato Institute میں فارن پالیسی اسٹڈیز کے ڈائریکٹر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ چین کو یہ اعتماد مہنگا پڑے۔’’میں سمجھتا ہوں کہ خطرہ یہ ہے کہ حالات کا اندازہ لگانے میں غلطی نہ ہو جائے، چینی کوئی غلط قدم نہ اٹھا لیں، اور کوئی ملک انجانے میں حد سے آگے نہ بڑھ جائے۔‘‘
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ چین نے فلپائن اور ویتنام کے احتجاج کا جواب اس طرح دیا کہ اس نے آسیان میں پھوٹ ڈالنے کے لیے کمبوڈیا کو استعمال کیا ۔
جسٹن لوگان کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ چین نے سانشا کی چھاؤنی کے معاملے میں اپنی صلاحیتوں کا غلط اندازہ لگایا ہو کیوں اس جزیرے پر فوجوں کی موجودگی کا جواز پیش کرنا مشکل ہو گا ۔
’’اس علاقے میں، اور آسیان میں کچھ ایسے ملک ہیں، اور ان میں ایک ملک کمبوڈیا ہے جو بہت سی وجوہات کی بنا پر اس معاملے میں چین کی حمایت کرنے کو تیار ہیں ۔ میرے خیال میں اس طرح ان ملکوں پر یہ کہنے کے لیے دباؤ پڑے گا کہ ہم اس معاملےمیں آپ کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ شاید ہمارے لیے خاموش رہنا بہتر ہو گا اور ہم اس سلسلے میں کوئی بیان نہیں دیں گے ۔‘‘
امریکہ محکمۂ خارجہ کی ترجمان خاتون وکٹوریہ نولینڈ کہتی ہیں کہ اس تنازعے کو طاقت کے زور پر طے نہیں کیا جا سکتا ۔
’’ہمیں بدستور تشویش ہے کہ اس قسم کے کوئی ی کطرفہ اقدام نہ کیے جائیں جن سے اس معاملے کے بارے میں پہلے سے کوئی فیصلہ ہو جائے۔ ہم نے بار بار کہا ہے کہ یہ مسئلہ صرف مذاکرات اور ڈائیلاگ کےذریعے، اور ایسے سفارتی طریقہ ٔ کار سے حل ہو سکتا ہے جس میں اس علاقے کے تمام دعویدار شرکت کریں۔‘‘
اگرچہ ان پانیوں میں امریکہ کسی علاقے کا دعویدار نہیں ہے، لیکن اوباما انتظامیہ نے کہا ہے کہ ساؤتھ چائنا سی کے معاملے میں کشیدگی اور تند و تیز بیانات پر ہر ملک کو تشویش ہونی چاہیئے ۔
ہو گیا ہے ۔
چین کا جدید ترین شہر اور فوجی چھاؤنی ایک ایسے جزیرے پر واقع ہے جس کی ملکیت کے ویتنام اور تائیوان بھی دعویدار ہیں۔ یہ تنازع ایک ایسے وقت پیدا ہوا ہے جب ساؤتھ چائنا سی میں معدنیات اور آمد و رفت کے حقوق پر کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے ۔اس نئے شہر سانشا سٹی کے پہلے میئر ژیاؤ جیئی کہتے ہیں’’ چین کی کمیونسٹ پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کا سانشا سٹی کے قیام کا فیصلہ دانشمندانہ اقدام ہے۔ اس طرح ہماری خود مختاری اور سیکورٹی کی حفاظت ہو گی اور ساؤتھ چائنا سی کے وسائل اور اس کی مجموعی ترقی کے تحفظ کو مضبوط بنایا جا سکے گا۔ ‘‘
بیجنگ کا منصوبہ یہ ہے کہ اپنے سانشا کے اڈے کو اس سمندر میں گشت میں اضافے کے لیے استعمال کیا جائے جس پر ویتنام اور فلپائن دونوں کا دعویٰ ہے ۔
فلپائن نے سانشا سٹی کے قیام کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے ۔
فلپائن کے ایوانِ نمائندگان کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی کے رکن والڈن بیلو کہتے ہیں’’یہ ایک ایسا اقدام ہے جس کا جواز صرف یہ ہے کہ چین اس علاقے میں زمین پر قبضہ کرنا چاہتا ہے ، اور اس شہر کو قائم کرنا بالکل نا جائز ہے ۔‘‘
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ سانشا سٹی کے منصوبے پر عمل در آمد سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین اس صورت ِ حال میں کتنا پُر اعتماد ہے ۔
جسٹن لوگان واشنگٹن میں قائم Cato Institute میں فارن پالیسی اسٹڈیز کے ڈائریکٹر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ چین کو یہ اعتماد مہنگا پڑے۔’’میں سمجھتا ہوں کہ خطرہ یہ ہے کہ حالات کا اندازہ لگانے میں غلطی نہ ہو جائے، چینی کوئی غلط قدم نہ اٹھا لیں، اور کوئی ملک انجانے میں حد سے آگے نہ بڑھ جائے۔‘‘
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ چین نے فلپائن اور ویتنام کے احتجاج کا جواب اس طرح دیا کہ اس نے آسیان میں پھوٹ ڈالنے کے لیے کمبوڈیا کو استعمال کیا ۔
جسٹن لوگان کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ چین نے سانشا کی چھاؤنی کے معاملے میں اپنی صلاحیتوں کا غلط اندازہ لگایا ہو کیوں اس جزیرے پر فوجوں کی موجودگی کا جواز پیش کرنا مشکل ہو گا ۔
’’اس علاقے میں، اور آسیان میں کچھ ایسے ملک ہیں، اور ان میں ایک ملک کمبوڈیا ہے جو بہت سی وجوہات کی بنا پر اس معاملے میں چین کی حمایت کرنے کو تیار ہیں ۔ میرے خیال میں اس طرح ان ملکوں پر یہ کہنے کے لیے دباؤ پڑے گا کہ ہم اس معاملےمیں آپ کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ شاید ہمارے لیے خاموش رہنا بہتر ہو گا اور ہم اس سلسلے میں کوئی بیان نہیں دیں گے ۔‘‘
امریکہ محکمۂ خارجہ کی ترجمان خاتون وکٹوریہ نولینڈ کہتی ہیں کہ اس تنازعے کو طاقت کے زور پر طے نہیں کیا جا سکتا ۔
’’ہمیں بدستور تشویش ہے کہ اس قسم کے کوئی ی کطرفہ اقدام نہ کیے جائیں جن سے اس معاملے کے بارے میں پہلے سے کوئی فیصلہ ہو جائے۔ ہم نے بار بار کہا ہے کہ یہ مسئلہ صرف مذاکرات اور ڈائیلاگ کےذریعے، اور ایسے سفارتی طریقہ ٔ کار سے حل ہو سکتا ہے جس میں اس علاقے کے تمام دعویدار شرکت کریں۔‘‘
اگرچہ ان پانیوں میں امریکہ کسی علاقے کا دعویدار نہیں ہے، لیکن اوباما انتظامیہ نے کہا ہے کہ ساؤتھ چائنا سی کے معاملے میں کشیدگی اور تند و تیز بیانات پر ہر ملک کو تشویش ہونی چاہیئے ۔