چینی حکومت کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا ہے کہ امریکہ کے ساتھ موجودہ حالات میں تجارتی تنازعات پر بات چیت بہت مشکل ہے کیوں کہ ان کے بقول "امریکہ چین کی گردن پر خنجر رکھ کر اپنی بات منوانا چاہتا ہے۔"
چین کے نائب وزیر برائے تجارت وانگ شووین نے منگل کو بیجنگ میں ایک پریس کانفرنس کےد وران کہا کہ اس بات کا فیصلہ کہ دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کب بحال ہوں گے، امریکہ کی خواہش پر منحصر ہے۔
چینی وزیر کا یہ بیان دونوں ملکوں کی جانب سے ایک دوسرے کی برآمدات پر عائد کیے جانے والے نئے ٹیکسوں کے نفاذ کے ایک روز بعد سامنے آیا ہے۔
تجارتی امور اور معاشی پالیسیوں پر اختلافات کے باعث صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت نے رواں ماہ چین سے کی جانے والی 200 ارب ڈالر مالیت کی درآمدات پر 10 فی صد اضافی ٹیکس نافذ کرنے کا اعلان کیا تھا جو پیر سے نافذ ہوگیا ہے۔
امریکہ کے اس اقدام کے جواب میں چین نے بھی پیر سے امریکہ سے درآمد کی جانے والی کئی اشیا پر پانچ سے 10 فی صد اضافی ٹیکس لگادیا ہے۔ بیجنگ نے جن درآمدی اشیا پر ٹیکس لگایا ہے ان کی مالیت 60 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔
نئے ٹیکسوں کے نفاذ کے بعد دنیا کی دونوں بڑی معاشی طاقتوں کے درمیان تجارتی جنگ زور پکڑ گئی ہے جس کے اثرات عالمی معیشت اور بین الاقوامی منڈیوں پر بھی پڑ رہے ہیں۔
گزشتہ کئی ماہ سے جاری اس تجارتی تنازع کے حل کے لیے دونوں ملکوں کے اعلیٰ حکام کے درمیان اب تک مذاکرات کے کئی دور ہوچکے ہیں لیکن تاحال تنازع کے حل کی جانب کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔
تنازع میں شدت آنے کے بعد چین نے گزشتہ ہفتے اپنے اس وفد کا دورۂ واشنگٹن بھی منسوخ کردیا تھا جسے مذاکرات کے لیے آئندہ ہفتے امریکہ جانا تھا۔
پیر کو اپنی پریس کانفرنس میں چین کے نائب وزیر وانگ شووین نے کہا کہ اب جب کہ امریکہ نے چینی برآمدات پر نئے ٹیکس عائد کرنے کا اتنا بڑا قدم اٹھا لیا ہے تو ایسے میں مذاکرات میں پیش رفت کیسے ہوسکتی ہے؟
انہوں نے کہا کہ امریکہ چین کی گردن پر خنجر رکھ کر اپنی بات منوانا چاہتا ہے لیکن ان حالات میں برابری کی سطح پر بات چیت نہیں ہوسکتی۔
چین کی وزارتِ خارجہ کے مطابق چین کے وزیرِ خارجہ وانگ یی نے بھی کہا ہے کہ "دھمکیوں اور دباؤ" کے موجودہ حالات میں امریکہ کے ساتھ مذاکرات نہیں ہوسکتے۔
وانگ یی اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس میں شرکت کے لیے نیویارک میں ہیں جہاں انہوں نے پیر کو امریکی تاجروں سے ملاقات کی۔
اپنی ملاقات میں چینی وزیرِ خارجہ نے الزام عائد کیا کہ امریکہ میں بعض قوتیں چین کی تجارتی اور سکیورٹی پالیسیوں کو جواز بنا کر اس پر بے بنیاد تنقید کر رہی ہیں۔
ان کے بقول یہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ عمل ہے اور اس نے دونوں ملکوں کے تعلقات کی فضا کو زہریلا بنا دیا ہے۔
وانگ یی نے خبردار کیا کہ اگر یہ رویہ جاری رہا تو اس سے وہ تمام پیش رفت خاک میں مل جائے گی جو چین اور امریکہ نے گزشتہ چار دہائیوں میں باہمی تعلقات بہتر بنانے کے لیے کی ہے۔
کاروباری اداروں نے خبردار کیا ہے کہ چینی درآمدات پر اضافی ٹیکسوں کا بوجھ امریکی صارفین کو منتقل ہوگا جنہیں عام استعمال کی کئی ضروری اشیا کی قیمتوں میں اضافے کا سامنا کرنا پڑے گا۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کا موقف ہے کہ چینی مصنوعات پر اضافی ٹیکسوں کے نفاذ کا مقصد چین کی حکومت کو امریکہ کے ساتھ باہمی تجارت میں موجود عدم توازن ختم کرنے کے لیے اقدامات پر مجبور کرنا ہے۔
امریکی حکومت دونوں ملکوں کے درمیان تجارت میں عدم توازن کے خاتمے کے علاوہ چین کی حکومت سے تجارت، ٹیکنالوجی کی منتقلی اور ہائی ٹیکنالوجی صنعتوں کو دی جانے والی سبسڈی سے متعلق پالیسیوں کو تبدیل کرنے کا بھی مطالبہ کر رہی ہے۔