چین کا کہنا ہے کہ لیبیا سے متعلق اس کی حکمتِ عملی شمالی افریقی ملک کی آزادی کے احترام اور وہاں جاری پرتشدد احتجاجی تحریک کے پرامن حل کے اصولوں پر استوار ہے۔
نیویارک میں ایک پریس بریفنگ سے خطاب کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ میں چین کے سفیر لی بائوڈونگ نے کہا ہےکہ لیبیا میں جاری عوامی مزاحمت پر چین کا ردِعمل تین واضح اصولوں - داخلی خودمختاری اور آزادی کے احترام اور مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کے پرامن حل کی کوششوں - پر وضع کیا گیا ہے۔
تاہم بائوڈونگ نے واضح کیا کہ خطے میں جاری عوامی مزاحمتی تحریک کے ہمہ گیر اثرات کے پیشِ نظر مسئلہ کے حل کیلیے خطے کے دیگر عرب اور افریقی ممالک کے موقف کو اہمیت دینا ضروری ہے۔
واضح رہے کہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی چیئرمین شپ اس ماہ چین کے پاس ہے جس کے باعث لیبیا میں جاری خانہ جنگی پہ عالمی برادری کے کسی بھی ممکنہ ردِ عمل میں چین کا کردار فیصلہ کن اہمیت اختیار کرگیا ہے۔
چین سلامتی کونسل کے صدر کی حیثیت سے پہلے ہی لیبیا ئی حکمرانوں کی جانب سے احتجاجی مظاہرین کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات کی تحقیقات "عالمی عدالت برائے جرائم" سے کرانے کی تجویز منظور کرچکا ہے۔
پریس کانفرنس میں چینی سفیر کا کہنا تھا کہ لیبیا کے پڑوسی اور خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ مذاکرات کے بعد ہی چین نے لیبیا میں پیش آنے والے واقعات کی تحقیقات بین الاقوامی عدالت سے کرانے کی تجویزمنظور کی۔
واضح رہے کہ چین نے اب تک 1998ء کے اس "اعلامیہ ء روم" پر دستخط نہیں کیے ہیں جس کے تحت عالمی عدالت کا قیام عمل میں آیا تھا۔
چین کی وزارتِ خارجہ نے اپنی ویب سائٹ پر جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان کا ملک جنگی جرائم کی ایک عالمی عدالت کے قیام کے تصور سے متفق ہے تاہم "اعلامیہ روم" کے کچھ شقوں پر تحفظات کے باعث چین نے اب تک اس پر دستخط نہیں کیے ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اگر عالمی عدالت اپنی کارکردگی کے ذریعے اکثریت کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی تو چین مستقبل میں اعلامیہ پر دستخط کرکے اس کا حصہ بن سکتا ہے۔ واضح رہے کہ اعلامیہ پہ دستخط کرنے والے رکن ممالک عدالت کے دائرہ اختیار میں آجاتے ہیں۔
چین کا کردار لیبیا کو "نو فلائی زون" قرار دینے کی تجویز کے حوالے سے بھی خاصا اہم گردانا جارہا ہے۔ کئی یورپی ممالک لیبیا کو "نو فلائی زون" قرار دینے کی تجویز پیش کر چکے ہیں اور گزشتہ روز امریکی سینیٹ نے بھی ایک مشترکہ قراداد کے ذریعے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل سے اپیل کی تھی کہ وہ لیبیا کو "نو فلائی زون" قرار دیدے۔
اگر سلامتی کونسل نے لیبیا کو "نو فلائی زون" قرار دینے کی منظوری دیدی تو صدر معمر قذافی کی جانب سے ملک میں احتجاج کرنے والے عوام کے خلاف جنگی طیارے استعمال کرنے کی کوشش کے جواب میں عالمی افواج کو انہیں مار گرانے کا حق حاصل ہوجائے گا۔
تاہم امریکی وزیرِدفاع رابرٹ گیٹس پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ لیبیا میں "نو فلائی زون" کی تشکیل کیلیے ضروری ہوگا کہ عالمی افواج پہلے حملہ کرکے ملک کی فضائی دفاعی نظام کو ناکارہ بنائیں۔
اگر لیبیا کو "نو فلائی زون" قرار دینے کی تجویز منظوری کیلیے سلامتی کونسل کے سامنے پیش ہوئی تو اس پر چین کا کردار نہایت اہم ہوگا۔ میڈیا میں آنے والی کچھ رپورٹس پہلے ہی اس خدشہ کا اظہار کرچکی ہیں کہ چین ممکنہ طور پر ایسی کسی تجویز کو "ویٹو" کرسکتا ہے۔