رسائی کے لنکس

چین بھارتی ریاست اروناچل پردیش کو اپنا حصہ کیوں سمجھتا ہے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

صونم سمپھل لداخ کے ایک سرکردہ سیاسی اور سماجی کارکن ہیں جنہیں اس ہمالیائی خطے کے مشرق میں واقع بھارت۔چین سرحد پر نہ ختم ہونے والے تناؤ پر خاصی تشویش ہے۔

ان کے لیے یہ اطلاعات بھی پریشانی کا باعث بن رہی ہیں کہ چین نے متنازع علاقے میں اپنی فوجی قوت بڑھانے کے لیے تعمیرات شروع کر رکھی ہیں جس میں کئی نئی سڑکوں اور چھوٹے بڑے پلوں کی تعمیر بھی شامل ہے۔

انہوں نے کہا "یہ ساری سرگرمی چین کے ارادوں اور فوجی توسیع پسندی کو ظاہر کرتی ہے۔ ہمیں چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ مجھے یقین ہے کہ بھارت اس خطرے سے غافل نہیں ہے۔"

بھارتی عہدیداروں کا کہنا ہے سیٹیلائٹ سے حاصل ہونے والی تازہ تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین کی پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) مشرقی لداخ میں واقع پینگانگ جھیل کے شمالی اور جنوبی کناروں کو ملانے کے لیے ایک سڑک تعمیر کر رہی ہے۔ یہ علاقہ ان پانچ مقامات میں سے ایک ہے جہاں دونوں کی افواج کے درمیان جھڑپیں ہوتی رہی ہیں۔

اس پل کی تعمیر مکمل ہونے پر خُرناک قلعے میں واقع پی ایل اے کی بڑی چھاؤنی اور پینگانگ جھیل کے جنوبی کنارے پر قائم مولڈو بارڈر پوائنٹ کے درمیان فاصلہ تقریباً 140 کلو میٹر کم ہو جائے گا۔ پینگانگ جھیل کے شمالی کنارے پر واقع خرناک قلعہ جس پر 1958 سے چین کا کنٹرول ہے ان علاقوں میں شامل ہے جن پر دونوں ملکوں کے درمیان طویل عرصے سے سرحدی تنازعہ چلا آ رہا ہے۔

'چین نے سڑکوں اور پلوں کا وسیع نیٹ ورک قائم کر دیا ہے'

بھارت کے مشہور تکشا شیلا انسٹی ٹیوٹ میں چائنا اسٹیڈیز پروگرام سے منسلک ریسرچ ایسوسی ایٹ سُیاش ڈیسائی کا کہنا ہے کہ چین اس علاقے میں محض ایک یا دو پُل یا سڑکیں تعمیر کرنے پر ہی اکتفا نہیں کر رہا ہے۔ بلکہ اس نے تبت میں بنیادی ڈھانچے کو توسیع دینے کے لیے 1999 سے جاری اپنے پروگرام اور فوجی حکمتِ عملی کے تحت سڑکوں ، پلوں اور دوسری مواصلاتی سہولیات کا ایک وسیع نیٹ ورک پھیلایا ہے۔

انہوں نے کہا "2015 میں چین کے صدر شی جن پنگ کی جانب سے فوجی اصلاحات کے اعلان کے بعد اس سرگرمی کی رفتار، دائرہ کار اور پیمانے میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ اس میں بھارت۔چین اور بھوٹان۔چین سرحدوں کی دوسری جانب دوہرے استعمال کے لیے رابطہ سڑکیں تعمیر کی گئی ہیں۔ جب کہ بین الصوبائی اور اندرون صوبائی سڑکوں اور شاہراہیں اور ریلوے لائنز بھی بنائی جا رہی ہیں۔

'خدشہ ہے کہ جنوبی ایشیا میں سرد جنگ جیسا ماحول نہ بن جائے'
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:03 0:00


سُیاش ڈیسائی کے مطابق چین کے یہ اقدامات چینی علاقے اکسائی چن سے لے کر ارونا چل پردیش کی سرحد تک جاری ہے بھارت کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے جس کا کوئی مناسب توڑ فی الوقت نظر نہیں آ رہا۔

تنازع کن کن علاقوں پر اور کیوں ہے؟

چین اور بھارت کے درمیان دو الگ الگ علاقوں پر سرحدی تنازعہ چلا آ رہا ہے۔ پہلا اکسائی چن پر جس کے بارے میں بھارت کا کہنا ہے یہ دراصل جموں و کشمیر کا علاقہ ہے جس پر چین نے ناجائز قبضہ کر رکھا ہے۔

چین کا اصرار ہے کہ یہ اس کے سنکیانگ صوبے کے مغرب میں واقع اس کا لازمی علاقہ ہے۔

دوسرا تنازعہ میکموہن لائن کا جنوبی علاقہ ہے۔ برطانوی دورِ حکومت میں اس کا نام شمال مشرقی سرحدی ایجنسی تھا لیکن اب یہ علاقہ ریاست ارونا چل پردیش کہلاتا ہے۔ میکموہن لائن برطانیہ اورتبت کے درمیان 1914 میں ہونے والے شملہ کنونشن کا حصہ تھا لیکن چین نے اس معاہدے کو مسترد کر دیا ہے۔

چین کا دعویٰ ہے کہ ارونا چل پردیش جنوبی تبت کا حصہ ہے۔ وہ بھارت کے سیاست دانوں کے اروناچل پردیش کے دوروں پر اعتراضات کرتا رہا ہے۔ حال ہی میں یہ رپورٹ آئی تھی کہ چین نے ارونا چل پردیش کے 15 مقامات کے نام تبدیل کیے ہیں۔ قبل ازیں اس نے 2018 میں ارونا چل پردیش کے چھ مقامات کے نام تبدیل کیے تھے۔

حقیقت تبدیل نہیں ہو سکتی: بھارت کا استدلال

لیکن نئی دہلی کا کہنا ہے کہ اس سے یہ حقیقت تبدیل نہیں ہو سکتی کہ ارونا چل پردیش بھارت کا ایک لازمی حصہ ہے اور ہمیشہ رہے گا۔

بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے چین کی جانب سے ارونا چل پردیش کے نام بدلنے کی کارروائی کو 'مضحکہ خیز' قرار دہا تھا۔

اُن کا کہنا تھا کہ "ہمیں امید ہے کہ چین احمقانہ باتوں میں الجھنے کے بجائے چین۔بھارت سرحدی علاقوں میں تصفیہ طلب معاملات کو حل کرنے کے لیے ہمارے ساتھ تعمیری طور پر کام کرے گا۔"

تاہم چین نے ارونا چل پردیش میں مختلف مقامات کے نام تبدیل کرنے کا دفاع کیا ہے۔ بیجنگ میں ارندم باگچی کے ہم منصب ژاؤ لی جیان کا کہنا تھا کہ ارونا چل پردیش چین کے خود مختار علاقے تبت کا ایک حصہ ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ یہ قدیم زمانے سے چین کا علاقہ رہ چکا ہے جہاں موئنبا سمیت چین کی نسلی اقلیتیں اور تبتی نسلی گروہ ایک طویل عرصے سے رہ رہے ہیں۔ لیکن اس علاقوں کے ناموں کو وقتاً فوقتاً ان کے لیے مانوس بنانے کے لیے تبدیل کیا جاتا رہا ہے جس کا ان کے بقول چین کو حق حاصل ہے۔

بھارتی دفاعی تجزیہ کار اجے شکلا کا کہنا ہے کہ اس پس منظر میں اور دونوں ملکوں کے درمیان نہ ختم ہونے والے سرحدی تناؤ کے پیشِ نظر اکسائی چن کے علاقے میں چین کی سرگرمیاں پر بھارت کی تشویش بلاجواز نہیں ہے۔

دوسری جانب بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ وہ اس علاقے میں چین کی سرگرمیوں سے غافل نہیں ہیں اور وہ بھی یہاں اپنی تنصیبات میں اضافہ کر رہے ہیں۔

بھارتی حکومت کے ذرائع کے مطابق بھارت نے بالخصوص مشرقی لداخ میں گزشتہ ایک سال کے دوراں 16 کے قریب نئے چھوٹے بڑے پُل تعمیر کیے ہیں۔ اس کے علاوہ دو درجن نئی رابطہ سڑکوں کو تعمیر یا موجودہ سڑکوں کو اپ گریڈ کیا گیا ہے۔ دفاعی لحاظ سے اس حساس ترین علاقے میں دوسرے بنیادی ڈھانچے کو بھی وسعت دی گئی ہے۔

بھارت کی بارڈر روڑز آرگنائزیشن(بی آراو) کے حکام کا کہنا ہے کہ وہ لداخ کو وادیٔ کشمیر سے ملانے والی واحد اہم شاہراہ کوجو سری نگر۔لیہہ شاہراہ یا نیشل ہائی وے ون کہلاتی ہے موسمِ سرما میں کھلا رکھنے کی بھی کوشش کر رہے ہیں۔

اس سلسلے میں اس شاہراہ کے دشوار ترین حصے پر سے برف کو ہٹانے اور اسے گاڑیوں کی آمد و رفت کے لیے کھلا رکھنے کے لیے جدید مشینری اور آلات مختص کیے گئے ہیں۔

اس صورتِ حال کے پیش ِ نظر بھارت نے حال ہی میں اپنی فوج کے دہشت گردی اور شورش مخالف فورس راشٹریہ رائفلز کو بھی مشرقی لداخ میں تعینات کر دیا ہے۔ جب کہ اس علاقے میں بنیادی ڈھانچے کو فروغ دینے کے لیے بھی اس کی طرف سے کئی اقدامات اٹھائے گیے ہیں۔

لیکن سُیاش ڈیسائی بھارت کی طرف سے اٹھائے جانے والے ان اقدامات اور کوششوں کو ناکافی سمجھتے ہیں بلکہ ان کا کہنا ہے کہ چین جس طرح کا اور جس تیز رفتاری اور اعتماد کے ساتھ متنازع مقامات سمیت اس سرحدی علاقے میں جدید طرز پر مواصلاتی نیٹ ورک اور دوسرا بنیادی ڈھانچہ تعمیر کر رہا ہے اس کا اور بھارت کے اقدامات کا کوئی موازنہ نہیں۔

بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ چینی عزائم کو ناکام بنانے کے لیے بھارت بھی اروناچل پردیش سمیت بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں میں بنیادی ڈھانچے اور سہولیات کو بڑھا رہا ہے۔

ان میں سڑکوں اور سبھی موسموں میں زمینی رابطوں کو یقینی بنانے کے لیے سرنگوں کی تعمیر، چار اسٹرٹیجک ریلوے لائنز، برہما پُتر دریا پر اضافی پل سمیت دیگر اقدامات شامل ہیں۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG