بیجنگ اور واشنگٹن کے درمیان خطے میں اثر و رسوخ میں اضافے کے لئے مسابقت بڑھتی جا رہی ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال منگل کے روز چین میں ہونے والا وہ اجلاس ہے، جس میں چین کی دعوت پر دس جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے وزراء شریک ہونگے۔
چین کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق، جنوب مغربی شہر چنگ چِنگ میں کل یعنی منگل کو ہونے والے اس وزارتی اجلاس میں کووڈ 19سے متاثر ہونے والی سیاحت اور معیشت کو بحال کرنے، وباء سے نمٹنے کی کوششوں کو مربوط بنانے اور ان ملکوں کے درمیان آزادانہ آمدورفت کے لئے ویکسین پاسپورٹ کے امکانات پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
توقع ہے کہ کانفرنس کے موقع پر چینی وزیرِ خارجہ وانگ یی اپنے تمام ہم منصبوں سے الگ الگ ملاقات کریں گے۔
بیجنگ جنوبی ایشیائی ممالک کی تنظیم آسیان میں شامل دس ممالک میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے کوشاں رہا ہے، باوجود اس کے، کہ ان میں سے بعض کے ساتھ اس کے جنوبی بحیرہ چین میں علاقائی تنازعات بھی ہیں۔
فلپائں جنوبی چین کے سمندر کے ایک کنارے پر چین کی کشتیوں میں اضافے کے بارے میں شکایت کر چکا ہے اور گزشتہ ہفتے ملائیشیا نے 16 چینی فوجی طیاروں کے اس کی فضائی حدود میں داخلے پر احتجاج کیا تھا اور اس واقعہ کو اپنی خود مختاری اور فضائی حدود کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا تھا۔
چینی معیشت اور سفارت کاری کے حجم نے اسے پڑوسی ملکوں کی ایسی تشویش کو جھٹکنے میں مدد دی ہے، جب کہ یہ بلاک ابتداً کمبوڈیا جیسے ممالک کے اندر موجود چینی اتحادیوں کی جانب سے مخالفت کے باعث کوئی متفقہ مؤقف اختیار کرنے میں ناکام رہا ہے۔
اتوار کے روز اس میٹنگ کا اعلان کرتے ہوئے چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان وانگ وین بن نے کہا کہ گزشتہ تین عشروں کے دوران چین اور آسیان کے درمیان تعاون میں بے حد اضافہ ہوا ہے اور یہ ایشیا۔ پیسیفک کے علاقے میں تعاون کی کامیاب ترین اور مضبوط مثال بن رہا پے۔
وانگ نے مزید کہا کہ یہ حقیقت کہ کووڈ 19 کی جاری خراب صورتِ حال کے باوجود دونوں جانب وزراء خارجہ کے خصوصی بالمشافہ اجلاس پر رضامندی سے ظاہر ہوتا ہے کہ کیسے ممالک نئےحالات میں چین اور آسیان کے تعلقات کو اہمیت دے رہے ہیں اور اس سے امیدیں وابستہ کر رہے ہیں۔
جنوبی بحیرہ چین میں امریکہ کی فعال بحری موجودگی ہے۔ خطے کے ممالک کے ساتھ اس کے تعلقات بھی مضبوط ہیں۔ تاہم وہ وہاں چین کی بڑھتی ہوئی موجودگی خاص طور پر سیکیورٹی اور نازک جمہوریتوں پر بیجنگ کے سیاسی اثر و رسوخ پر اپنی تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔
منگل کے روز کمبوڈیا کے وزیرِ اعظم ہن سین سے ملاقات میں امریکی نائب وزیرِ خارجہ وینڈی شرمین نے توجہ ریم نیول بیس نامی بحری اڈے پر چین کی نئی تنصیبات کی تعمیر پر مرکوز رکھی اور کمبوڈیا کی قیادت پر زور دیا کہ وہ کمبوڈیا کے عوام کے بہترین مفاد کی خاطر، آزاد اور متوازن خارجہ پالیسی برقرار رکھے۔
اسی دوران چین وہاں امریکی بحری موجودگی کو خطے کی سیکیورٹی کے لئے سب سے بڑا خطرہ قرار دیتا ہے،خاص طور پر چین کے قبضے والے علاقوں کے قریب بحری نقل و حرکت پر اصرار کو، جسے بحری راستوں پر آمدورفت کی آزادی تصور کیا جاتا ہے۔
بیجنگ کو امریکہ اور تائیوان کے درمیان تعلقات کی مضبوطی پر بھی اعتراض ہے۔ چین تائیوان کے خود مختار جزیرے پر اپنا دعویٰ رکھتا ہے اور اسے اپنے کنٹرول میں لانے کے لئے فوجی طاقت کے استعمال کی دھمکی دیتا ہے۔
اتوار کے روز واشنگٹن کی جانب سے اس وقت بھرپور پیغام بھیجا گیا، جب تین امریکی سینیٹر ائیر فورس کے مال بردار طیارے کے ذریعے کووڈ 19 ویکسین کی ساڑھے سات لاکھ خوراکیں لے کر تائی پی روانہ ہوئے۔ تائیوان نے شکایت کی تھی کہ چین وباء سے نمٹنے کی اس کی کوششوں کے دوران ویکسین کے حصول میں رکاوٹیں پیدا کر رہا ہے۔
گزشتہ ہفتے عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او نے چین کی ایک اور ویکسین کے ہنگامی استعمال کی منظوری دی تھی۔ کرونا ویک نامی اس ویکسین کو 51 فی صد تک مؤثر پایا گیا ہے اور یہ کووڈ 19 کی آخری سٹیج سے بچاؤ میں مدد کر سکتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ وباء کے خاتمے میں یہ کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔