رسائی کے لنکس

کم سنی کی شادی، غیر صحت مند اولاد


بھارت میں کم سنی کی شادی پر کئی برسوں سے پابندی عائد ہے۔ خواتین 18 برس کی عمر تک پہنچنے سے پہلے شادی نہیں کر سکتیں، تاہم اس کے باوجود بھارت میں کم سنی کی شادیاں مکمل طور پر ختم نہیں ہوئیں اور خاص طور پر غریب دیہی علاقوں میں یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ اس کے باوجود کہ اس طرح کی شادیاں کرنے والی لڑکیوں اور ان کے بچوں کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔

ڈاکٹر انیتا راج بوسٹن یونیورسٹی میں کم عمری کی شادی کے اثرات کے موضوع پر تحقیق کر رہی ہیں۔

گذشتہ سال شائع ہونے والے ایک مضمون میں اُنھوں نے لکھا تھا کہ جو لڑکیاں 18برس سےکم عمر میں شادی کے بندھن میں داخل ہو جاتی ہیں اُن میں غیر ضروری حمل ٹھہر جانے کا امکان نسبتاً زیادہ ہوتا ہے۔

اپنی نئی تحقیق میں راج بتاتی ہیں کہ ایسی ماؤں میں کم عمری کی شادی اور لاغر بچوں کا تعلق بالکل واضح ہے۔

اُن کے بقول، ‘وہ مائیں جو کم عمری میں شادی کر لیتی ہیں اُن میں اِس بات کا امکان زیادہ ہوتا ہے کہ اُن کے ہاں کم وزن کے بچے پیدا ہوں گے، نوزائیدہ کی شرحِ اموات زیادہ ہو گی، اور زچہ اور بچہ دونوں غیر تسلی بخش صحت کے حامل رہیں گے۔’

لیکن کچھ اعداد و شمار استثنیٰ کی طرف نشان دہی کرتے ہیں، جِس کا انحصار غربت اور تعلیم پر ہے۔ کم وزن ہونا یا ناقص غذا کے کچھ آثاراِسی امر کا مزید شاخسانہ ہے۔ اُن کے بقول اگر یہ حقیقت تسلیم کر لی جائے کہ کم سنی میں شادی کر لینے والی خواتین کے بارے میں قوی امکان اِس بات کا ہے کہ اُن میں باضابطہ تعلیم کا فقدان ہو گا، اُن کا تعلق دیہی علاقے سے ہو گا، بے انتہا غربت کی شکار زندگی بسر کر رہی ہوں گی، لیکن ہر صورت میں غیر متوازن غذا کے اثرات نمایاں ہوں گے۔

اپنی تحقیق میں راج اور اُن کے ساتھیوں نے بھارتی حکومت کے سروے میں دیے گئے اعداد و شمار کا استعمال کیا ہے۔

اُنھوں نے 20ہزار نوزائیدہ بچوں کے بارے میں دی گئی اطلاعات کا تجزیہ کیا، جو زیادہ تر ایسی خواتین کے ہاں پیدا ہوئے جنھوں نے 18سال سے کم عمر میں شادی کی تھی۔

حالاں کہ اُن کی تحقیق میں اِس بات کی وضاحت موجود نہیں کہ کم سنی میں شادی کر لینے والی عورتیں ایسی اولاد کو کیوں جنم دیتی ہیں جن میں ناقص یا ناکافی غذا سے پیدا ہونے والی کمزوری ہوتی ہے، راج کہتی ہیں کہ کسی حد تک اِس کا سبب یہ ہے کہ زچہ و بچہ ابھی بڑھنے کے مراحل طے کر رہے ہوتے ہیں، یوں کہیئے کہ دونوں صحت بخش توانائی کو اپنی طرف کھینچنے کی تگ و دو کرنے کی کیفیت سے گزر رہے ہوتے ہیں۔

اُن کے بقول وہ جو کچھ توانائی حاصل کر رہے ہوتے ہیں وہ دو جسموں کی آپس کی لڑائی کی نذر ہو جاتی ہے۔ اور ہم سمجھتے ہیں کہ کبھی کبھار وہ ماں کی صحت کے لیے مسائل کھڑے کرتی ہے، اور کبھی کبھار یہ صورتِ حال بچے کی صحت کے لیے مسائل کا موجب بنتی ہے۔ دونوں صورتوں میں یہ بات اچھی صحت کا علامت نہیں۔

انیتا راج بھارتی نژاد امریکی ہیں۔ وہ تسلیم کرتی ہیں کہ کم عمر کی شادی مدتوں سے بھارت کے دیہی علاقوں میں ثقافتی روایات کا حصہ رہی ہے۔ لیکن وہ کہتی ہیں کہ ماں اور بچے دونوں کے لیے اِس میں بہت سے منفی پہلو موجود ہیں۔اُن کے بقول اِس روایت کو جاری رکھنے کا جواز ناکافی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ کم عمری کی شادی کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ صحت مند حمل ٹھہرے گا یا صحت مند تولید ہو گی۔ لیکن بات یہ کہ کم سن لڑکیوں کے پاس زیادہ معلومات نہیں ہوتیں، پھر یہ کہ وہ اِس قابل نہیں ہوتیں کہ خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں تک اُن کی رسائی ہو اور اُن کے پاس یہ قوتِ فیصلہ نہیں ہوتی کہ وہ اپنے جسم پر بوجھ ڈالنے کے بارے میں خود ہی کوئی فیصلہ کر سکیں۔’

XS
SM
MD
LG