پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کو اس بات کا احساس ہے کہ انہیں افغانستان میں امن و استحکام کے لیے کی جانے والی کوششوں کی راہ میں رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور مل کر کام کرنا ہوگا۔
پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان، نفیس ذکریا نے جمعرات کو معمول کی ہفتہ وار اخباری بریفنگ کے دوران کہا کہ ’’پاکستان افغانستان کے ساتھ رابطے میں ہے‘‘، اور اس سلسلے میں، "تمام چینل کھلے ہیں۔"
نفیس ذکریا نے کہا کہ اس سلسلے میں وزیر اعظم نواز شریف نے صدر اشرف غنی سے بھی ملاقات کی تھی۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتہ قزاقستان کے دارالحکومت آستانہ میں شنگھائی تعاون تنطیم کے اجلاس کے موقع پر پاکستانی وزیر اعظم اور افغان صدر کے درمیان ملاقات ہوئی تھی۔ نفیس ذکریا نے کہا کہ پاکستان نے حال ہی میں کابل میں امن و سلامتی سے متعلق ہونے والے اجلاس میں بھی شرکت کی۔
پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ چین افغانستان میں امن و استحکام کے لیے کی جانے والی تمام کوششوں میں شامل ہے اور اس سلسلے میں پاکستان اور چین مل کر کام کر رہے ہیں۔
نفیس ذکریا نے کہا کہ چین افغانستان کی ترقی اور تعمیر نو کے لیے سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین افغانستان امن عمل کے لیے چار ملکی رابطہ گروپ اور ’ہارٹ آف ایشیا‘ میں بھی شامل ہے۔
افغانستان میں امن عمل کے لیے جنوری 2016 میں چار ملکی گروپ کا پہلا اجلاس ہوا۔ امریکہ، چین، پاکستان اور افغانستان اِس گروپ میں شامل ہیں جس کے اسلام آباد اور کابل میں متعدد اجلاس ہوئے۔ تاہم، اب یہ گروپ کافی عرصے سے غیر فعال ہے۔ تاہم، اطلاعات کے مطابق دوبارہ اس گروپ کو فعال کرنے کرنے کی ضرورت پر زور دیا جا رہا ہے۔
ںفیس ذکریا نے اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کے لیے روس کے ثالثی کی پیش کش کا خیر مقدم کیا ہے۔
اانہوں نے کہا کہ"پاکستان سلامتی کونسل کے مستقل رکن روس کی طرف سے دیرینہ مسئلہ کے حل کے لیے کردار ادا کرنے کی پیش کش کا خیر مقدم کرتا ہے جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے میں ہے۔"
کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان شروع ہی سے ایک متنازع مسئلہ چلا آرہا ہے اور ماضی میں بھی کئی دیگر ممالک اس مسئلہ کے حل کے لیے کردار ادا کرنے کی پیش کش کر چکے ہیں۔
اگرچہ، بھارت کی طرف سے پاکستان کے اس تازہ بیان پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا، تاہم بھارت اس معاملے پر ثالثی یا کسی تیسرے فریق کے کردار کی مخالف کرتا رہا ہے اور اس کا مؤقف رہا ہے کہ کشمیر کے مسئلے کا حل پاکستان کے ساتھ دو طرفہ بات چیت ہی سے ممکن ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ایک سال سے زائد عرصے سے پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات تناؤ کا شکار ہیں اور امریکہ اور دیگر کئی ممالک اسلام آباد اور نئی دہلی پر زور دیتے آ رہے ہیں کہ وہ باہمی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جائے۔