کراچی کے علاقے اورنگی ٹاوٴن میں مقیم ایک نوجوان ایسا بھی ہے جو اب سے کچھ دنوں پہلے’لڑکی‘ تھا اور جس کا نام نگہت تھا، لیکن پھر اس کے جسم میں قدرتی طور پر تبدیلیاں ہونے لگیں اور کچھ ہی مہینوں کے بعد وہ مکمل طور پر لڑکا بن گیا۔ اس نوجوان کا نیا نام ’درویش‘ ہے۔
درویش کا کراچی کے ہی ایک اسپتال میں علاج ہورہا ہے۔ وہ علاج کے مکمل ہونے کا بے تابی سے منتظر ہے۔ وہ پشتو بولتا ہے، جبکہ اس کا آبائی شہر سوات ہے۔
سنہ 2009ء میں جب وہاں شدت پسندوں کے خلاف سیکورٹی فورسز کا آپریشن ہوا تو درویش اور اس کے اہل خانہ کراچی اپنے رشتے داروں کے پاس چلے آئے اور تب سے یہیں مقیم ہیں۔
’وائس آف امریکہ‘ کے نمائندے نے گزشتہ روز درویش سے ایک دلچسپ اور خصوصی انٹرویو کیا۔
چونکہ درویش کو اردو نہیں آتی، لہذا جواب دینے میں اُن کے ایک قریبی عزیز نے ان کی مدد کی۔ قارئین کی دلچسپی کی غرض سے درویش سے کی گئی یہ بات چیت من و عن سوال جواب کی صورت میں پیش کی جارہی ہے۔ ملاخطہ کیجئے:
’اپنے پس منظر اور اس وقت کے بارے میں کچھ بتایئے جب آپ لڑکی تھے؟‘
’میری عمر بیس سال ہے۔ گھروالوں نے میرا نام نگہت رکھا تھا۔ میں اپنے خاندان اور معاشرے میں اسی نام سے پہچانا جاتا تھا۔ میں پختون ہوں۔ میرے دو بھائی اور مجھ سمیت دس بہنیں تھیں۔ میں سب سے چھوٹا ہوں۔ جب میں لڑکی تھا تو بالکل انہی کی سی زندگی گزارتا تھا۔ 2012 ءمیں آنے والے رمضان کے مہینے سے پہلے تک مجھے خود بھی اندازہ نہیں تھا کہ میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ رمضان میں مجھے اپنے جسم میں اچانک کچھ عجیب و غریب سی تبدیلیاں محسوس ہوئیں۔ انہیں محسوس کرکے میری کیفیت عجیب سی ہونے لگی۔ اس کیفیت کو میں الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا۔ بعد میں مجھے علم ہوا کہ میں لڑکا بنتا جارہا ہوں۔‘
’جب آپ نے ان تبدیلیوں کے بارے میں اپنے گھر والوں کو بتایا تو ان کا کیا رد عمل تھا؟‘
’میں نے سب سے پہلے اپنی بھابھی کو اس تبدیلی کے بارے میں بتایا اور جب میری فیملی کے دوسرے افراد کو اس بارے میں معلو م ہوا تو وہ لو گ کہنے لگے کہ تم بہکی بہکی باتیں کیوں کرنے لگے ہو۔ یہاں تک کہ جب میری بڑی بہن مجھے ڈاکٹر کے پاس لیکر گئی تو ڈاکٹر کو بھی بہت حیرت ہوئی۔ پھرجب میں نے ایک اسپیشلسٹ سے چیک اپ کرایا تو اس نے میرا برقع اتار کر پھینک دیا اور کہا کہ آج سے تم اسی طرح رہو گے۔ اس کے بعد گھر والوں کو میری باتوں پر یقین آیا کہ میں نےجو کچھ کہا تھا وہ سچ تھا۔‘
’آپ کی عمرکتنی ہے؟ آپ نے تعلیم کہاں تک حاصل کی ہے؟‘
’میں نے اسکول میں تو تعلیم حاصل نہیں کی مگر قرآن پاک حفظ کیا ہوا ہے اور اسے ترجمے کے ساتھ بھی پڑھا ہوا ہے۔ عمر 20سال ہے۔ اب میری خواہش ہے کہ میں اسکول کی تعلیم بھی حاصل کروں اور ساتھ ہی ساتھ ایک مدرسہ بھی کھولوں جس میں دوسرے بچوں کو بھی تعلیم دے سکوں‘۔
’لڑکا بننے کے بعد آپ کے بارے میں دوسروں کے احساسات کس طرح کے ہیں ؟‘
’لوگ حیرت زدہ ہوکر مجھے دیکھتے ہیں اور دیکھنے کی غرض سے ہی دور، دور سے ملنے آتے ہیں۔ ‘
’شادی کا کیا ارادہ ہے؟ کیا کوئی لڑکی پسند کی؟‘
( شرماتے ہوئے)۔۔’میری بہنوں کی خواہش ہے کہ جلد سے جلد وہ میری شادی کر دیں۔ ایک لڑکی مجھے پسند ہے اور وہ مجھ سے شادی بھی کرنا چاہتی ہے۔‘
’درویش نام کس نے رکھا؟‘
’میرے بھانجے نے‘۔
درویش سے متعلق والد اور بھائی کے خیالات
درویش کے والد محمد سلطان نے ’وائس آف امریکہ‘ سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا، ’میں قدرت کی طرف سے ہونے والی اس تبدیلی پر بہت خوش ہوں۔ اللہ کا شکر ہے کہ میرے بیٹوں کی تعداد میں اس نے ایک اور اضافہ کردیا۔ اب وہ بھی میرا سہارا بنے گا۔‘
ایک سوال کے جواب میں محمد سلطان کا کہنا تھا کہ، ’اُنہیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ کون کیا کہتا ہے۔ بس میری حکومت سے اتنی اپیل ہے کہ وہ میرے بچے کے تمام میڈیکل ٹیسٹ اور آپریشن کروانے کے لئے میری کچھ مدد کرے تاہم اس کا ہر طرح سے مکمل علاج ہوسکے اور وہ بھی ایک عام مرد کی طرح زندگی گزار سکے۔‘
درویش کا ایک بھائی بھی درویش کے لڑکی سے لڑکا بننے پر خوش ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اب وہ درویش کے ساتھ مل کر کرکٹ کھیلا کرے گا۔
ماہرین طب
درویش کے’ لڑکی‘ سے ’لڑکا‘ بننے کی خبر پاکستان کےمقامی میڈیا میں بھی آچکی ہے۔ نجی ٹی وی ’جیو‘ نے اس حوالے سےجب کراچی کے ایک ماہر اینڈوکرانالوجسٹ ڈاکٹر شیخ زمان سے ان کی رائے جاننا چاہی تو ان کا کہنا تھا کہ، ’درویش کا معاملہ اتنا آسان نہیں ہے کیونکہ ابھی درویش کو ایک طویل میڈیکل پراسیس سے گزرنا پڑے گا۔ اس کے بعد ہی اصل معاملہ سامنے آئے گا کہ اس تبدیلی کی اصل وجہ کیا ہے۔‘
ڈاکٹر شیخ زمان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جنس کی تبدیلی کے عوض لڑکے سے لڑکی بننے کا عمل آسان ہے لیکن لڑکی سے لڑکا بننے کے پراسس میں تین چیزوں کو سامنے رکھنا پڑتا ہے۔ سب سے پہلا نفسیاتی مسئلہ ہوتا ہے جس کا سامنا نہ صرف مریض کو کرنا پڑتا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس کے گھر والوں اور اس سے وابستہ دوسرے لوگوں کو بھی کرناپڑتا ہے۔ دوسرا مسئلہ مریض کے ہارمونز کی تبدیلی بھی ہے، کیونکہ مرد اور عورت کے ہارمونز میں کافی فرق ہوتا ہے اور یہ ضروری نہیں کہ اگر جنس تبدیل ہوگئی ہے تو ہارمونز بھی تبدیل ہوجائیں۔ اس کے لئے مریض کو میڈیکل چیک اپ کے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔ تیسرا اور سب سے اہم مرحلہ پلاسٹک سرجری کا ہوتا ہے۔‘
درویش کا کراچی کے ہی ایک اسپتال میں علاج ہورہا ہے۔ وہ علاج کے مکمل ہونے کا بے تابی سے منتظر ہے۔ وہ پشتو بولتا ہے، جبکہ اس کا آبائی شہر سوات ہے۔
سنہ 2009ء میں جب وہاں شدت پسندوں کے خلاف سیکورٹی فورسز کا آپریشن ہوا تو درویش اور اس کے اہل خانہ کراچی اپنے رشتے داروں کے پاس چلے آئے اور تب سے یہیں مقیم ہیں۔
’وائس آف امریکہ‘ کے نمائندے نے گزشتہ روز درویش سے ایک دلچسپ اور خصوصی انٹرویو کیا۔
چونکہ درویش کو اردو نہیں آتی، لہذا جواب دینے میں اُن کے ایک قریبی عزیز نے ان کی مدد کی۔ قارئین کی دلچسپی کی غرض سے درویش سے کی گئی یہ بات چیت من و عن سوال جواب کی صورت میں پیش کی جارہی ہے۔ ملاخطہ کیجئے:
’اپنے پس منظر اور اس وقت کے بارے میں کچھ بتایئے جب آپ لڑکی تھے؟‘
’میری عمر بیس سال ہے۔ گھروالوں نے میرا نام نگہت رکھا تھا۔ میں اپنے خاندان اور معاشرے میں اسی نام سے پہچانا جاتا تھا۔ میں پختون ہوں۔ میرے دو بھائی اور مجھ سمیت دس بہنیں تھیں۔ میں سب سے چھوٹا ہوں۔ جب میں لڑکی تھا تو بالکل انہی کی سی زندگی گزارتا تھا۔ 2012 ءمیں آنے والے رمضان کے مہینے سے پہلے تک مجھے خود بھی اندازہ نہیں تھا کہ میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ رمضان میں مجھے اپنے جسم میں اچانک کچھ عجیب و غریب سی تبدیلیاں محسوس ہوئیں۔ انہیں محسوس کرکے میری کیفیت عجیب سی ہونے لگی۔ اس کیفیت کو میں الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا۔ بعد میں مجھے علم ہوا کہ میں لڑکا بنتا جارہا ہوں۔‘
’جب آپ نے ان تبدیلیوں کے بارے میں اپنے گھر والوں کو بتایا تو ان کا کیا رد عمل تھا؟‘
’میں نے سب سے پہلے اپنی بھابھی کو اس تبدیلی کے بارے میں بتایا اور جب میری فیملی کے دوسرے افراد کو اس بارے میں معلو م ہوا تو وہ لو گ کہنے لگے کہ تم بہکی بہکی باتیں کیوں کرنے لگے ہو۔ یہاں تک کہ جب میری بڑی بہن مجھے ڈاکٹر کے پاس لیکر گئی تو ڈاکٹر کو بھی بہت حیرت ہوئی۔ پھرجب میں نے ایک اسپیشلسٹ سے چیک اپ کرایا تو اس نے میرا برقع اتار کر پھینک دیا اور کہا کہ آج سے تم اسی طرح رہو گے۔ اس کے بعد گھر والوں کو میری باتوں پر یقین آیا کہ میں نےجو کچھ کہا تھا وہ سچ تھا۔‘
’آپ کی عمرکتنی ہے؟ آپ نے تعلیم کہاں تک حاصل کی ہے؟‘
’میں نے اسکول میں تو تعلیم حاصل نہیں کی مگر قرآن پاک حفظ کیا ہوا ہے اور اسے ترجمے کے ساتھ بھی پڑھا ہوا ہے۔ عمر 20سال ہے۔ اب میری خواہش ہے کہ میں اسکول کی تعلیم بھی حاصل کروں اور ساتھ ہی ساتھ ایک مدرسہ بھی کھولوں جس میں دوسرے بچوں کو بھی تعلیم دے سکوں‘۔
’لڑکا بننے کے بعد آپ کے بارے میں دوسروں کے احساسات کس طرح کے ہیں ؟‘
’لوگ حیرت زدہ ہوکر مجھے دیکھتے ہیں اور دیکھنے کی غرض سے ہی دور، دور سے ملنے آتے ہیں۔ ‘
’شادی کا کیا ارادہ ہے؟ کیا کوئی لڑکی پسند کی؟‘
( شرماتے ہوئے)۔۔’میری بہنوں کی خواہش ہے کہ جلد سے جلد وہ میری شادی کر دیں۔ ایک لڑکی مجھے پسند ہے اور وہ مجھ سے شادی بھی کرنا چاہتی ہے۔‘
’درویش نام کس نے رکھا؟‘
’میرے بھانجے نے‘۔
درویش سے متعلق والد اور بھائی کے خیالات
درویش کے والد محمد سلطان نے ’وائس آف امریکہ‘ سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا، ’میں قدرت کی طرف سے ہونے والی اس تبدیلی پر بہت خوش ہوں۔ اللہ کا شکر ہے کہ میرے بیٹوں کی تعداد میں اس نے ایک اور اضافہ کردیا۔ اب وہ بھی میرا سہارا بنے گا۔‘
ایک سوال کے جواب میں محمد سلطان کا کہنا تھا کہ، ’اُنہیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ کون کیا کہتا ہے۔ بس میری حکومت سے اتنی اپیل ہے کہ وہ میرے بچے کے تمام میڈیکل ٹیسٹ اور آپریشن کروانے کے لئے میری کچھ مدد کرے تاہم اس کا ہر طرح سے مکمل علاج ہوسکے اور وہ بھی ایک عام مرد کی طرح زندگی گزار سکے۔‘
درویش کا ایک بھائی بھی درویش کے لڑکی سے لڑکا بننے پر خوش ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اب وہ درویش کے ساتھ مل کر کرکٹ کھیلا کرے گا۔
ماہرین طب
درویش کے’ لڑکی‘ سے ’لڑکا‘ بننے کی خبر پاکستان کےمقامی میڈیا میں بھی آچکی ہے۔ نجی ٹی وی ’جیو‘ نے اس حوالے سےجب کراچی کے ایک ماہر اینڈوکرانالوجسٹ ڈاکٹر شیخ زمان سے ان کی رائے جاننا چاہی تو ان کا کہنا تھا کہ، ’درویش کا معاملہ اتنا آسان نہیں ہے کیونکہ ابھی درویش کو ایک طویل میڈیکل پراسیس سے گزرنا پڑے گا۔ اس کے بعد ہی اصل معاملہ سامنے آئے گا کہ اس تبدیلی کی اصل وجہ کیا ہے۔‘
ڈاکٹر شیخ زمان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جنس کی تبدیلی کے عوض لڑکے سے لڑکی بننے کا عمل آسان ہے لیکن لڑکی سے لڑکا بننے کے پراسس میں تین چیزوں کو سامنے رکھنا پڑتا ہے۔ سب سے پہلا نفسیاتی مسئلہ ہوتا ہے جس کا سامنا نہ صرف مریض کو کرنا پڑتا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس کے گھر والوں اور اس سے وابستہ دوسرے لوگوں کو بھی کرناپڑتا ہے۔ دوسرا مسئلہ مریض کے ہارمونز کی تبدیلی بھی ہے، کیونکہ مرد اور عورت کے ہارمونز میں کافی فرق ہوتا ہے اور یہ ضروری نہیں کہ اگر جنس تبدیل ہوگئی ہے تو ہارمونز بھی تبدیل ہوجائیں۔ اس کے لئے مریض کو میڈیکل چیک اپ کے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔ تیسرا اور سب سے اہم مرحلہ پلاسٹک سرجری کا ہوتا ہے۔‘