رسائی کے لنکس

فوجی عدالتوں سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ چیلنج؛ کیا نگراں حکومت کے پاس یہ اختیار ہے؟


پاکستان کی نگراں حکومت نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز روکنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل دائر کر دی ہے۔

بعض قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ نگراں حکومت کے پاس یہ فیصلہ چیلنج کرنے کا اختیار نہیں ہے جب کہ بعض ماہرین کہتے ہیں کہ حکومت اور اداروں کو خدشہ ہے کہ نو مئی واقعات کے ملزمان کہیں سزا سے نہ بچ نکلیں۔

وزارتِ دفاع کی اپیل میں استدعا کی گئی ہے کہ عسکری تنصیبات پر حملوں کے ملزمان کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہ کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔ درخواستوں میں سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ کی کالعدم قرار دی گئی شقیں بھی بحال کی جائیں۔

حکومت کی جانب سے یہ اپیل ایسے وقت میں دائر کی گئی ہے جب نو مئی کے واقعات میں ملوث بہت سے سیاسی رہنماؤں پر فوجی عدالتوں میں مقدمات زیرِالتوا ہیں۔ تاہم بعض سیاسی جماعتیں، انسانی حقوق اور وکلا تنظیمیں عام شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائلز کی مخالفت کر رہے ہیں۔

23 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے سویلینز کے مقدمات سے متعلق آرمی ایکٹ کی شق ٹو ون ڈی کو کالعدم قرار دیتے ہوئے نو مئی کے واقعات میں گرفتار تمام ملزمان کے مقدمات فوجی عدالتوں سے فوجداری عدالتوں میں بھیجنے کا حکم دیا تھا۔

وفاقی حکومت اور وزارتِ دفاع نے سپریم کورٹ سے یہ بھی استدعا کی ہے کہ اپیلوں پر حتمی فیصلے تک فوجی عدالتوں میں ٹرائل روکنے کے فیصلے پر حکم امتناع جاری کیا جائے۔

'نگراں حکومت کے پاس فیصلہ چیلنج کرنے کا اختیار نہیں ہے'

پاکستان کی فوج کے شعبہ قانون یعنی جیگ برانچ سے وابستہ رہنے والے کرنل (ر) انعام الرحیم کہتے ہیں کہ نگراں حکومت کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے اہم فیصلے کو چیلنج کرے کیوں کہ یہ روز مرہ امور نہیں بلکہ ایک پالیسی معاملہ ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ ابھی آنا باقی ہے اور اصولی طور پر حکومت کو اس موقع پر نظرِثانی اپیل دائر نہیں کرنی چاہیے تھی۔

کرنل (ر) انعام الرحیم کہتے ہیں کہ فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے مقدمات کی سماعت سے سیاسی حکومت اور مقتدرہ کے تعلقات متاثر ہوتے ہیں۔

'حکومت کو خدشہ ہے کہ ریاستی اداروں کو نشانہ بنانے والے سزا سے بچ نکلیں گے'

سینئر وکیل شیر امان کہتے ہیں کہ وفاقی حکومت کی درخواست سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اسے خدشہ ہے کہ ریاستی اداروں کو نشانہ بنانے والے عناصر سزا سے بچ نکلیں گے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ جاسوسی اور دفاعی اعتبار سے ریاست کے خلاف کام کرنے والوں کے مقدمات عام عدالتوں میں چلانے اور ان حقائق کو عام کرنے سے مزید مشکلات ہو سکتی ہیں۔

شیر امان خان نے کہا کہ حکومت کا مقصد یہ ہو سکتا ہے کہ نو مئی کے واقعات میں ملوث افراد کو فوجی عدالتوں کے ذریعے سزا دلوائی جائے۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر سینیٹر کامران مرتضی کہتے ہیں کہ آئین میں فوجی عدالتوں کا کوئی تصور نہیں ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ فوجی عدالتوں میں فوجیوں کے مقدمات تو چل سکتے ہیں لیکن عام شہریوں کے نہیں اور اس معاملے پر زور اس وجہ سے دیا جا رہا ہے کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو فوجی عدالت سے سزا دلوائی جا سکے۔

سینیٹ قرارداد

گزشتہ ہفتے سینیٹ نے بھی فوجی عدالتوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر قرارداد منطور کی تھی جس میں 23 اکتوبر کے فیصلے کو ’قانون کو دوبارہ لکھنے کی کوشش‘ اور ’پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیار سے ٹکراؤ' کے مترادف قرار دیا گیا تھا اور سپریم کورٹ سے اس پر دوبارہ غور کرنے کا کہا گیا تھا۔

تاہم مرکزی سیاسی جماعتوں کے سینیٹرز گزشتہ دو اجلاسوں میں شدید احتجاج اور قرارداد فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قرارداد کو قواعد کے برخلاف منظور کیا گیا۔

جمعے کو سینیٹ کا ہونے والا اجلاس بھی اسی ہنگامہ آرائی کے باعث نہ چل سکا اور چیئرمین سینیٹ کو اجلاس ملتوی کرنا پڑا۔

سینیٹر کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ سینیٹ وفاق کی علامت ایوان ہے جہاں سے فوجی عدالتوں کے حق میں منظور کردہ قرارداد جمہوریت کی بدنامی ہے۔

سپریم کورٹ کا فیصلہ کیا تھا؟

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز کو متفقہ طور پر کالعدم قرار دے دیا تھا۔

عدالت نے چھ صفحات پر مبنی اپنے مختصر فیصلے میں ہدایت کی تھی کہ عدالت میں جن 103 افراد کی فہرست پیش کی گئی ہے ان کے خلاف فوجی عدالت میں جاری ٹرائلز سویلین عدالتوں میں کیے جائیں گے۔ فیصلے میں نو اور 10مئی کے واقعات کے ملزمان پر درج ہونے والے مقدمات واپس معمول کی فوج داری عدالتوں کو بھجوانے کا حکم بھی دیا گیا تھا۔

رواں برس نو مئی کو سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد مختلف شہروں میں احتجاج اور فوجی عمارتوں پر حملوں میں مبینہ طور پر ملوث افراد کے خلاف اس وقت کی حکومت نے فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانےکا فیصلہ کیا تھا۔

سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، چیئرمین تحریکِ انصاف عمران خان، ماہرِ قانون بیرسٹر اعتزاز احسن، کرامت علی، جنید رزاق، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، حفیظ اللہ نیازی، لیفٹننٹ کرنل ریٹائرڈ انعام رحیم اور نعیم اللہ قریشی نے سویلین افراد کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف درخواستیں دائر کی تھیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG