واشنگٹن —
اب صحافی بھی وسطی افریقی جمہوریہ میں جاری تشدد کے واقعات کی لپیٹ میں آنے لگے ہیں۔
ادریس فال، ’وائس آف امریکہ‘ کے افریقہ کے لیے فرانسسی سروس کے نامہ نگار ہیں۔ اُنھوں نے بتایا ہے کہ جمعے کے روز ایک مسلح گروپ نے اُن کی گاڑی پر حملہ کیا، اُس وقت جب وہ دارلحکومت بانگئی کے شمالی مضافات سے گزر رہے تھے، جہاں زیادہ تر عیسائی برادری آباد ہے۔
اُن کے بقول،’یوں کہیئے کہ ہم تقریباً 200افراد کے نرغے میں تھے، جِن کے ہاتھوں میں بڑے چُھرے، بندوق اور پتھر تھے‘۔
’میں نے ڈرائیور سے کہا کہ گاڑی کو نہ روکو۔ جس پر، اُنھوں نے کہا کہ اگر بھاگنے کی کوشش کی گئی، تو پھر حملہ ہو ہی ہو۔ پھر، وہ ذرا آہستہ ہوا، اِس کوشش میں کہ اُن سے مکالمہ کیا جائے۔ اور یوں، ہم انبوہ کے درمیان پھنس کر رہ گئے۔ اُنھوں نے پتھر مارنا شروع کردیے، گاڑیوں کو چھروں کا نشانہ بنایا۔ ہم خوش قسمت تھے کہ ہم 200 میٹر دور تھے، ہم سے آگے دو بکتربند گاڑیاں تھیں جن میں فرانسسی فوجی سوار تھے۔ اُنھوں نے اپنی بندوقوں کے زور پر بھیڑ پر قابو پایا اور وہ بھاگ نکلے۔ اُن فرانسسی فوجیوں نے ہمارے تحفظ کے لیے ہمیں ہوٹل کی طرف واپس جانے کو کہا۔‘
فال کا کہنا تھا کہ اُن کی گاڑی کو نقصان پہنچا، لیکن، وہ اور اُن کا ڈرائیور اور ایک مقامی معاون بچ گئے۔
اُنھوں نے کہا کہ جب وہ اپنے ہوٹل پہنچے تو اُنھیں یہ رپورٹ ملی کہ ایک مسلح گروپ نے جمعے کے دِن فرانس کے صحافیوں کو ہدف بنایا، جب وہ بانگئی میں زیادہ تر مسلمانوں کی آبادی والے علاقے سے گزر رہے تھے۔
اُنھوں نے بتایا کہ مسلح افراد نے صحافیوں کی گاڑی کو نقصان پهنچایا۔
اُن کے الفاظ میں، یہ ایک ہجوم تھا، جس میں کم عمر لوگ شریک تھے۔ اُن کے پاس ’سیلیکا‘ یا ’اینٹی بلاکا‘ قسم کے بندوق نہیں تھے۔ وہ یا تو عیسائی تھے یا پھر مسلمان۔ لیکن یہ بہت ہی خطرناک معاملہ ہے، کیونکہ آپ کو نہیں معلوم کہ بھیڑ کو کون کنٹرول کر رہا ہے۔
فال نے بتایا کہ جب منگل کو وہ وہاں پہنچے تو بانگئی زیادہ تر پُرامن تھا۔ لیکن، دیکھتے ہی دیکھتے، گولیوں کی آوازیں جمعرات کی شام گئے تک یا پھر جمعے کی صبح تک جاری رہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ کَل سے، یوں لگتا ہے کہ کچھ لاوا سا پَک رہا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ لیکن، اندر ہی اندر کچھ ہلچل سی ہے۔ لوگ مسلمانوں پر حملے کر رہے ہیں۔ مسلمان عیسائیوں پر دھاوا بول رہے ہیں۔
فال نے بتایا کہ صورتِ حال سخت کشیدہ ہے، اور یہ کہ اُنھوں نے سنُا ہے کہ اِن تازہ جھڑپوں میں متعدد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
ادریس فال، ’وائس آف امریکہ‘ کے افریقہ کے لیے فرانسسی سروس کے نامہ نگار ہیں۔ اُنھوں نے بتایا ہے کہ جمعے کے روز ایک مسلح گروپ نے اُن کی گاڑی پر حملہ کیا، اُس وقت جب وہ دارلحکومت بانگئی کے شمالی مضافات سے گزر رہے تھے، جہاں زیادہ تر عیسائی برادری آباد ہے۔
اُن کے بقول،’یوں کہیئے کہ ہم تقریباً 200افراد کے نرغے میں تھے، جِن کے ہاتھوں میں بڑے چُھرے، بندوق اور پتھر تھے‘۔
’میں نے ڈرائیور سے کہا کہ گاڑی کو نہ روکو۔ جس پر، اُنھوں نے کہا کہ اگر بھاگنے کی کوشش کی گئی، تو پھر حملہ ہو ہی ہو۔ پھر، وہ ذرا آہستہ ہوا، اِس کوشش میں کہ اُن سے مکالمہ کیا جائے۔ اور یوں، ہم انبوہ کے درمیان پھنس کر رہ گئے۔ اُنھوں نے پتھر مارنا شروع کردیے، گاڑیوں کو چھروں کا نشانہ بنایا۔ ہم خوش قسمت تھے کہ ہم 200 میٹر دور تھے، ہم سے آگے دو بکتربند گاڑیاں تھیں جن میں فرانسسی فوجی سوار تھے۔ اُنھوں نے اپنی بندوقوں کے زور پر بھیڑ پر قابو پایا اور وہ بھاگ نکلے۔ اُن فرانسسی فوجیوں نے ہمارے تحفظ کے لیے ہمیں ہوٹل کی طرف واپس جانے کو کہا۔‘
فال کا کہنا تھا کہ اُن کی گاڑی کو نقصان پہنچا، لیکن، وہ اور اُن کا ڈرائیور اور ایک مقامی معاون بچ گئے۔
اُنھوں نے کہا کہ جب وہ اپنے ہوٹل پہنچے تو اُنھیں یہ رپورٹ ملی کہ ایک مسلح گروپ نے جمعے کے دِن فرانس کے صحافیوں کو ہدف بنایا، جب وہ بانگئی میں زیادہ تر مسلمانوں کی آبادی والے علاقے سے گزر رہے تھے۔
اُنھوں نے بتایا کہ مسلح افراد نے صحافیوں کی گاڑی کو نقصان پهنچایا۔
اُن کے الفاظ میں، یہ ایک ہجوم تھا، جس میں کم عمر لوگ شریک تھے۔ اُن کے پاس ’سیلیکا‘ یا ’اینٹی بلاکا‘ قسم کے بندوق نہیں تھے۔ وہ یا تو عیسائی تھے یا پھر مسلمان۔ لیکن یہ بہت ہی خطرناک معاملہ ہے، کیونکہ آپ کو نہیں معلوم کہ بھیڑ کو کون کنٹرول کر رہا ہے۔
فال نے بتایا کہ جب منگل کو وہ وہاں پہنچے تو بانگئی زیادہ تر پُرامن تھا۔ لیکن، دیکھتے ہی دیکھتے، گولیوں کی آوازیں جمعرات کی شام گئے تک یا پھر جمعے کی صبح تک جاری رہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ کَل سے، یوں لگتا ہے کہ کچھ لاوا سا پَک رہا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ لیکن، اندر ہی اندر کچھ ہلچل سی ہے۔ لوگ مسلمانوں پر حملے کر رہے ہیں۔ مسلمان عیسائیوں پر دھاوا بول رہے ہیں۔
فال نے بتایا کہ صورتِ حال سخت کشیدہ ہے، اور یہ کہ اُنھوں نے سنُا ہے کہ اِن تازہ جھڑپوں میں متعدد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔