رسائی کے لنکس

جینیاتی تبدیلی کے ذریعے کینسر کے علاج میں پیش رفت


 کینسر کے مریض کے خون کو فلٹر کر کے مدافعتی نظام کے خلیوں کی ایڈیٹنگ کی جاتی ہے۔
کینسر کے مریض کے خون کو فلٹر کر کے مدافعتی نظام کے خلیوں کی ایڈیٹنگ کی جاتی ہے۔

کینسر کے علاج کے لیے سائنس دان ایک نئے طریقے کو آزما رہے ہیں اور وہ ہے مریض کے جین کو تبدیل کر کے اسے کینسر کے خلاف لڑنے کے لیے تیار کرنا۔ یہ طریقہ ان مریضوں پر آزمایا جا رہا ہے جن پر اس موذی مرض کے علاج کے باقی طریقے بے اثر ہو چکے ہیں۔

امریکہ میں پہلی بار انسانی جین کو لیبارٹری میں تبدیل کر کے کینسر کے خلاف لڑنے کے لیے تیار کرنے کا تجربہ فلاڈلفیا میں واقع یونیورسٹی آف پنسلوانیا میں آزمایا گیا ہے۔

جین میں تبدیلی کے اس طریقے کو CRISPR کہا جاتا ہے۔ اس میں انسانی جین میں سے کچھ حصے نکال دیے جاتے ہیں اور کچھ نئی چیزیں شامل کر دی جاتی ہیں۔

ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ انہوں نے کامیابی کے ساتھ کینسر کے تین مریضوں کے خون میں مدافعتی نظام کے خلیوں کو نکال کر انہیں تبدیل کیا جس کے بعد وہ اس قابل ہو گئے کہ کینسر کے خلیے کی شناخت کر کے اس کے خلاف لڑ سکیں۔ کینسر کے مرض میں انسان کا مدافعتی نظام کینسر کے خلیوں کو شناخت کرنے میں ناکام رہتا ہے جس کی وجہ سے کینسر پھیلتا چلا جاتا ہے۔

سائنس دانوں نے مریضوں کے خون میں سے مدافعتی نظام کے تین ایسے خلیوں کو نکال دیا جو کینسر زدہ خلیوں کو شناخت کر کے ان کا مقابلہ کرنے میں رکاوٹ بن رہے تھے اور اس کی بجائے ایک چوتھا جزو شامل کیا جو مدافعتی نظام کو مرض کے خلاف لڑنے کے قابل بناتا ہے۔

اس تجربے کی قیادت ڈاکٹر ایڈورڈ سٹیڈٹمور نے کی۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ جینیاتی انجنیئرنگ کا ایک انتہائی پیچیدہ عمل ہے۔ یہ تجربہ ثابت کرتا ہے کہ ہم انتہائی صحت کے ساتھ انسانی خلیوں کی ایڈیٹنگ کر سکتے ہیں۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس تحقیق کا مقصد انسانی جسم میں ڈی این اے کو تبدیل کرنا نہیں ہے، بلکہ اس کے خلیوں کو اس طرح بدل کر واپس جسم میں منتقل کرنا ہے کہ وہ پوری قوت کے ساتھ کینسر کے خلاف لڑ سکیں۔

اس سے قبل ایک ایسا ہی تجربہ چینی سائنس دان بھی کر چکے ہیں، لیکن امریکہ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے۔

اس طریقہ کار میں جسم سے مدافعتی نظام کے خلیے نکال لیے جاتے ہیں۔ یہ خلیےT سیل کہلاتے ہیں۔ انہیں لیبارٹری میں تبدیل کر کے دوبارہ مریض کے جسم میں داخل کر دیا جاتا ہے۔ یہ عمل صرف ایک بار کیا جاتا ہے جس کے بعد جسم میں داخل کیے جانے والے تبدیل شدہ خلیے قدرتی طریقے سے اپنی تعداد میں اضافہ کرتے رہتے ہیں اور فطری نظام کے تحت بیماری سے لڑتے رہتے ہیں۔ ان کی حیثیت جسم کے اندر ایک دفاعی فوج کی ہوتی ہے۔

اب تک جن تین مریضوں پر یہ طریقہ آزمایا گیا ہے، ان میں سے دو بلڈ کینسر کے مریض تھے۔ دو سے تین مہینوں کے بعد جب ان کا معائنہ کیا گیا تو ایک مریض کی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی جب کہ دوسرے کی حالت سنبھل رہی تھی۔ تیسرے مریض کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس کے جسم میں تبدیل شدہ خلیے حال ہی میں داخل کیے گئے ہیں جس کے نتائج کے لیے کچھ عرصہ انتظار کرنا ہو گا۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس نئی تحقیق کے متعلق مزید معلومات امریکن سوسائٹی آف ہیماٹالوجی کی دسمبر میں ہونے والی سالانہ کانفرنس میں پیش کی جائیں گی۔

سائنس دان مزید 15 مریضوں پر اس تجربے کی تیاری کر رہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG