کینیڈا کی لیوال یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق دل کے امراض آج بھی دنیا کے کم آمدنی والے ممالک میں اموات کا بڑا سبب ہیں لیکن امیر ممالک میں اب اس مرض سے کم اور کینسر سے زیادہ اموات ہوتی ہیں۔
یہ نتائج دس سال تک کیے جانے والے دو عالمی مطالعوں کے بعد رواں ہفتے جاری کیے گئے ہیں۔
'دی لانسیٹ میڈیکل جنرل' میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق مطالعے کے دوران ایک لاکھ 60 ہزار افراد پر تحقیق کی گئی جن میں کم، زیادہ اور درمیانی انکم والے ممالک کے باشندے شامل تھے۔
تحقیق کے مطابق 2017 میں تقریباً ایک کروڑ 77 لاکھ افراد دل کی بیماریوں کے سبب ہلاک ہوئے لیکن امیر ممالک میں کینسر سے ہونے والی اموات کی تعداد ان سے زیادہ رہی۔
کینیڈا کی 'لیوال یونیورسٹی' کے پروفیسر گیلس ڈیگناس کا کہنا ہے کہ دل کے امراض اب زیادہ آمدنی والے ممالک کے لیے موت کی بڑی وجہ نہیں رہے۔ سن 2017 تک دنیا کے لئے کینسر اموات کا دوسرا بڑا سبب تھا جس کے ہاتھوں ایک چوتھائی اموات ہوا کرتی تھیں یعنی سالانہ 26 فیصد لیکن اب کینسر اموات کی پہلی وجہ بن گیا ہے۔
پروفیسر گیلس کے مطابق پچھلے 50 سالوں کے دوران دنیا بھر میں دل کی مختلف بیماریوں کے سبب ہونے والی اموات میں کمی آئی ہے جبکہ اسی مرض سے مرنے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
کم آمدنی والے ممالک میں آج بھی کینسر اور نمونیہ جیسے غیر متعدی امراض امیر ممالک کے مقابلے میں زیادہ عام نہیں ہیں۔
کینیڈا کے محققین کی جانب سے 21 ممالک میں کیے گئے ایک دوسرے مطالعے کے مطابق دنیا بھر میں دل کی بیماریوں میں گھرے 70 فیصد افراد میں مرض کا سبب وہ مختلف عوامل ہیں جن پر مریض خود توجہ نہیں دیتا جن میں خوارک پر توجہ، لوگوں سے روا رکھا جانے والا رویہ اور معاشرتی سلوک شامل ہے۔
ہائی کولیسٹرول، موٹاپا، ذیابطیس جیسی شکایات کے اسباب سے آگاہی نہ ہونے کے سبب ان کا علاج نہ کرانا بھی غریب یا کم آمدنی والے ممالک کے لیے دل کی بیماریوں میں اضافے کی وجہ ہے جبکہ امیر یا زیادہ آمدنی والے ممالک میں صورت حال اس سے مختلف ہے۔
کم آمدنی والے ممالک میں دل کے امراض میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ماحولیاتی آلودگی، کم خوراک اور کم معیار تعلیم بھی ہے جبکہ امیر ممالک نے ان وجوہات پر بہت بڑی حد تک قابو پالیا ہے جس کے سبب وہاں اموات میں کمی ہوئی ہے۔