کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے پناہ گزینوں کے استقبال کی حمایت کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ مزید ملکوں کو تارکین وطن کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ ان کا استقبال اس لیے نہیں کریں کہ یہ ایک اچھا قدم ہوگا بلکہ اس لیے کریں کہ پناہ گزیں اپنے ملک میں ظلم و ستم سے بچنے اور دوسرے ملکوں میں بہتر زندگی گزارنے کے لیے ترک سکونت پر مجبور ہوتے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ تارکین وطن ان ملکوں کے شکر گزار ہیں جو ان کو پناہ دیتے ہیں۔ وہ وہاں سخت محنت کرتے ہیں اور اس ملک کی تعمیر و ترقی میں شاندار رول ادا کرتے ہیں۔ یہی کینیڈا کی کہانی ہے۔ وہ آئی آئی ایم احمدآباد میں سوالوں کے جواب دے رہے تھے۔
وہ اپنی اہلیہ اور تین بچوں کے ہمراہ بھارت کے ایک ہفتے کے دورے پر آئے ہوئے ہیں۔
جب ان سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان میں مماثلت کے بارے میں پوچھا گیاتو انھوں نے کہا کہ وہ ہمیشہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ مستقبل اور سرمایہ کاری کے تعلق سے دونوں کی سوچ یکساں ہے۔ دونوں کی پالیسیاں کینڈا اور امریکہ کی معیشت کے لیے سود مند ہیں۔ دونوں اپنے اپنے ملک کے متوسط طبقات کی بہتری کے لیے کام کر رہے ہیں۔
انھوں نے کینیڈا اور بھارت کے دوطرفہ تعلقات کو کینڈا کے لیے بہت اہم قرار دیا اور کہا کہ اشیا اور خدمات کے شعبوں میں دونوں ملکوں کی باہمی تجارت دس ارب ڈالر ہے۔ لیکن اگر امریکہ کے ساتھ تجارتی تعلقات کا موازنہ کیا جائے تو بھی تجارتی فروغ کے بہت امکانات ہیں۔
جسٹن ٹروڈو ہفتے کے روز ممبئی پہنچے تھے۔ کینیڈا کے اخبارات میں ایسی خبریں ہیں کہ نئی دہلی نے جسٹن کے دورے کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔ ایسے میں جبکہ وزیر اعظم مودی نے تقریباً ایک ضابطہ بنا لیا ہے کہ وہ سربراہ مملکت کا استقبال ایئرپورٹ جا کرکرتے ہیں، انھوں نے جسٹن ٹروڈو کا استقبال نہیں کیا۔
ان کا استقبال نہ تو وزیر خارجہ نے کیا اور نہ ہی ان کے دو جونئیر وزرا میں سے کسی نے کیا۔ بلکہ ان کا استقبال جونئیر وزیر برائے زراعت نے کیا۔
کینیڈین پریس کے مطابق نئی دہلی نے یہ سردمہری اس لیے دکھائی کہ کینیڈا میں خالصتان نواز طاقتوں کو اہمیت حاصل ہے۔ جسٹن وزارت میں دو ایسے سکھ بھی ہیں جو انتہاپسند خالصتانی عناصر کی حمایت کرتے ہیں۔
نئی دہلی نے اس الزام کی تردید کی ہے اور واضح کیا ہے کہ وزیر اعظم مودی نے گزشتہ ہفتے بھارت کے دورے پر آئے ایران کے صدر حسن روحانی کا بھی ایئر پورٹ جا کر استقبال نہیں کیا تھا۔