رسائی کے لنکس

کانگریس کے نئے صدر ارجن کھرگے کون ہیں اور پارٹی کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟


بھار ت کی جنوب مغربی ریاست کرناٹک سے تعلق رکھنے والے 80 سالہ بزرگ سیاست داں ملک ارجن کھرگے بھارت کی تاریخی سیاسی جماعت کانگریس پارٹی کے صدر منتخب ہو گئے ہیں۔ توقع ہے کہ وہ 25 یا 26 اکتوبر کو باضابطہ طور پر پارٹی صدر کی ذمہ داری سنبھال لیں گے۔

ان کا انتخاب اس لحاظ سے تاریخی ہے کہ 24 برس میں پہلی بار پارٹی کی قیادت گاندھی خاندان سے باہر گئی ہے۔ بہت سے تجزیہ کار اور حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے لوگ انہیں گاندھی خاندان کا امیدوار قرار دیتے رہے ہیں۔

لیکن کانگریس نے اس کی تردید کی ہے اور ملک ارجن کھرگے اور ان کے حریف ششی تھرور دونوں نے کہا ہے کہ گاندھی خاندان اس الیکشن میں غیر جانب دار رہا ہے۔

کھرگے نے الیکشن جیتنے کے بعد اپنے پہلے ردِعمل میں کہا کہ ہمیں فسطائی قوتوں سے لڑنا ہے۔ ہمیں ان طاقتوں سے لڑنا ہے جو جمہوریت کا نام تو لیتی ہیں لیکن اسی پر حملہ کرتی ہیں۔ ان کا اشارہ واضح طور پر حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی طرف تھا۔

کھرگے پارٹی کے دوسرے دلت صدر ہیں۔ پہلے دلت صدر بابو جگجیون رام تھے جنہیں 71-1970میں صدر منتخب کیا گیا تھا۔ کھرگے بدھ مت کے پیروکار ہیں۔ وہ ایک سنجیدہ، سلجھے ہوئے اور غیر متنازع سیاست دان سمجھے جاتے ہیں۔

مشکل حالات سے قومی سیاست تک

ملک ارجن کھرگے 21 جولائی1942 کو کرناٹک کے علاقے بیدر میں پیدا ہوئے تھے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق کھرگے کا بچپن اپنے آبائی گاؤں وروتّی ضلع بیدر میں انتہائی تنگ دستی میں گزرا۔ اس وقت وہ علاقہ نظام حیدرآباد کے زیر حکومت تھا۔

وہ سات سال کے تھے کہ اس وقت وہاں فرقہ وارانہ فساد ہوا جس میں ان کی والدہ اور خاندان کے متعدد افراد ہلاک ہو گئے۔ اس واقعے نے ان لوگوں کو اپنا گھربار چھوڑنے پر مجبور کر دیا اور ان کا خاندان گلبرگہ میں جا کر بس گیا۔ اس شہر کو اب کلبرگی کہا جاتا ہے۔

انہوں نے گلبرگہ کے سیٹھ شنکر لال لاہوتی کالج سے قانون کی پڑھائی کی۔ طالب علمی کے زمانے سے ہی وہ سیاست میں دلچسپی لینے لگے تھے۔ انھوں نے اسٹوڈنٹس یونین کے انتخاب میں حصہ لیا اور اس کے جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے۔

قانون کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے بہت قلیل مدت تک وکالت کی۔ پھر 1969 میں کانگریس پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔ انہیں اسی سال گلبرگہ شہر کی کانگریس شاخ کا صدر بنا دیا گیا۔

انہوں نے 1972 میں کرناٹک اسمبلی کے لیے پہلا الیکشن لڑا جس میں وہ کامیاب رہے۔ اس کے بعد سے لے کر2008 تک وہ مسلسل آٹھ بار ریاستی اسمبلی کے لیے منتخب ہوئے۔ اس دوران وہ کرناٹک حکومت میں کئی بار وزیر بنائے گئے۔ انہیں 2005 میں کرناٹک کانگریس کا صدر نامزد کیا گیا۔

وہ 2009 میں قومی سیاست میں آگئے۔ اس سال کے پارلیمانی انتخابات میں کرناٹک کے گلبرگہ حلقے سے کانگریس کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے اور ڈاکٹر من موہن سنگھ کی مرکزی حکومت میں ریلوے کے وزیر بنائے گئے۔ بعد میں انہیں سماجی انصاف اور ایمپاورمنٹ کا وزیر بنایا گیا۔

اس کے بعد 2014 کے پارلیمانی انتخابات میں بھی جب کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو زبردست عوامی حمایت حاصل تھی۔انہوں نے گلبرگہ سے ہی دوبارہ کامیابی حاصل کی۔

انہوں نے بی جے پی کے امیدوار کو 13 ہزار سے زائد ووٹوں کے فرق سے ہرایا تھا۔ تاہم 2019 کے پارلیمانی انتخاب میں وہ بی جے پی امیدوار سے شکست کھا گئے۔

انہیں فروری 2021 میں راجیہ سبھا کا رکن منتخب کیا گیا۔ وہ 16 فروری 2021 سے لے کر یکم اکتوبر 2022 تک ایوانِ بالا میں قائد حزب اختلاف رہے۔ قبل ازیں ایوان زیریں یعنی لوک سبھا میں 2014 سے 2019 کے درمیان کانگریس پارٹی کے قائد رہے۔

انہیں شروع سے ہی گاندھی خاندان کا وفادار سمجھا جا تا رہا ہے۔ اس کے باوجود وہ تین بار 1999، 2004 اور 2013 میں کرناٹک کے وزیرِ اعلیٰ کی دوڑ سے باہر ہوئے۔

ان مواقع پر انہیں ایس ایم کرشنا، دھرم سنگھ اور سدھا رمیا سے شکست کھانی پڑی تھی۔ ایس ایم کرشنا بعد میں وزیرِ خارجہ بنائے گئے تھے۔

ان کی اہلیہ کانام رادھا بائی کھرگے ہے۔ ان کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ بڑے بیٹے پریانک کھرگے بھی سیاست میں ہیں اور کرناٹک کے کلبرگی ضلعے کے چتّاپور اسمبلی حلقے سے دوسری بار منتخب ہوئے ہیں۔

کھرگے کے سامنے چیلنجز

کھرگے کانگریس کے صدر تو منتخب ہو گئے مگر ان کے سامنے کئی چیلنجز ہیں۔ سب سے بڑا چیلنج پارٹی میں اصلاحات کے عمل کو تیز کرکے اس میں دوبارہ نئی جان ڈالنا ہے۔

کیا وہ پارٹی کو درپیش مسائل سے نکالنے اور بی جے پی کے مقابلے میں ایک سیاسی طاقت کے طور پر کھڑا کرنے میں کامیاب ہوں گے؟ اس بارے میں تجزیہ کاروں کی الگ الگ رائے ہے۔

بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر چہ پارٹی قیادت گاندھی خاندان سے باہر جا چکی ہے تاہم پارٹی میں اہم فیصلے گاندھی خاندان ہی کرے گا۔ خیال رہے کہ نتیجے کے اعلان کے بعد سونیا گاندھی نے اپنی بیٹی پرینکا گاندھی کے ساتھ کھرگے کے گھر جا کر انہیں مبارکباد پیش کی ہے۔

ہندی روزنامہ ’ہندوستان‘ کے ایڈیٹر اور سینئر تجزیہ کار پرتاپ سوم ونشی کہتے ہیں کہ ملک ارجن کھرگے ایک سینئر اور تجربہ کار سیاست دان ہیں۔ وہ اگر چہ گاندھی خاندان کے وفادار ہیں لیکن ان کے اندر آزادانہ فیصلہ کرنے کی صلاحیت بھی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ششی تھرور کے مقابلے میں کھرگے کے انتخاب کو پارٹی کی کمزوری کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے۔ بلکہ اس کے برعکس ان کے انتخاب سے پارٹی کو استحکام حاصل ہوگا۔ بالخصوص جنوبی بھارت میں پارٹی کی مقبولیت میں اضافہ ہوگا۔

ان کے مطابق وہ ایک دلت سیاست دان ہیں اور دلت سیاست کو پارٹی میں ایک بڑا چہرہ ملا ہے۔ انہیں پہلے بھی پارٹی میں اہم عہدے ملتے رہے ہیں۔

سمجھا جا رہا ہے کہ وہ جنوب میں پارٹی کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں اور خاص طور پر دلتوں کو پارٹی کے قریب لا سکتے ہیں۔ ان کے مطابق پارٹی کی قیادت کا برہمن سیاست دانوں سے ہاتھ سے نکل کر دلت سیاست دان کے پاس پہنچ جانا موجودہ سیاسی تناظر میں اہم پیش رفت ہے۔

بعض دیگر مبصرین کا خیال ہے کہ اگر ششی تھرور صدر بنتے تو پارٹی کو نیا خون ملتا اور جوان قیادت حاصل ہوتی۔ لیکن سوم ونشی کے مطابق کانگریس جیسی پارٹی کے لیے عمر کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

اُن کے بقول اہمیت تجربے کی ہے اور کھرگے تھرور کے مقابلے میں کہیں زیادہ تجربہ کار ہیں۔ وہ اگر چہ 80 برس کے ہیں لیکن آج بھی سیاست میں سرگرم ہیں اور جسمانی طور پر فٹ ہیں۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں کانگریس کا زبردست دفاع کیا ہے۔

ایک تجزیہ کار تیرتھو بنرجی کے مطابق کھرگے کے سامنے کئی چیلنجز ہیں۔ جیسے کہ غیر فعال ہو چکے پارٹی کارکنوں میں نیا جوش پیدا کرنا۔ 2024 کے پارلیمانی انتخابات سے قبل پارٹی کے اندر انتخابی حکمت عملی تیار کرنا۔ تنظیمی اصلاحات کرکے مقامی سطح سے لے کر ریاستی سطح تک انتخابات کرانا۔

پرتاپ سوم ونشی کہتے ہیں کہ کھرگے کو بھی ان چیلنجز کا علم ہے اور وہ ضرور کوئی نہ کوئی حکمت عملی مرتب کریں گے۔ ان کے بقول اہم بات یہ ہے کہ کھرگے کو پارٹی میں قبولیت حاصل ہے۔ 90 فیصد ڈیلی گیٹس نے ان کو ووٹ دیا ہے۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ ششی تھرور صدر بنتے تو پارٹی میں بہت تبدیلی آجاتی۔ بڑی سیاسی جماعتوں میں کوئی بہت زیادہ تبدیلی آتی بھی نہیں ہے۔ ان کے مطابق کانگریس ملک کی واحد جماعت ہے جس میں بیلٹ پیپر سے ووٹ ڈال کر صدر کا انتخاب ہوتا ہے۔ ہمیں اس کا خیرمقدم کرنا چاہیے۔ کیوں کہ یہی جمہوریت ہے۔

تجزیہ کار انجم نعیم کے خیال میں مختلف ریاستوں میں کانگریس کارکنوں اور عہدے داروں میں چپقلش کا عالم ہے۔ ہر رہنما اپنے سیاسی مفادات کے حصول کے لیے دوسروں پر تنقید کرتا اور ان کی راہ میں رکاوٹ بننے کی کوشش کرتا ہے۔ سوم ونشی کے مطابق اگر کسی پارٹی میں لوگوں کو اپنے خیالات کے اظہار کی آزادی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس میں اندرونی جمہوریت ہے۔

ان کے بقول ایسی توقع ہے کہ کھرگے ایسے نئے چہروں کو سامنے لا سکتے ہیں جو ابھی پردے کے پیچھے سے کام کر رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ بہت دنوں کے بعد کانگریس پارٹی کے تعلق سے اچھی خبر سننے کو ملی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ کھرگے ہی صحیح انتخاب ہیں۔ تاہم وہ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ کھرگے کے سامنے چیلنجز زیادہ اور 2024 سے قبل تیاری کے لیے وقت بہت کم ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG