کراچی میں ان دنوں جس طرف بھی جائیے ایک نہ ایک دکان ایسی ضرور مل جائے گی جہاں آپ کو بڑے بڑے حروف میں ’اونٹنی کا دودھ‘ لکھا مل جائے گا۔
فریسکو چوک برنس روڈ، گرومندر، تین ہٹی، گلشن اقبال، لکی اسٹار صدر۔۔۔نمائش چورنگی غرض کہ شہر کے بیچ و بیچ آپ کو ایک نہیں متعدد دکانوں پر اونٹنی کا دودھ بکتا مل جائے گا۔
اونٹنی کے دودھ کی ایسی ہی ایک دکان کے مالک عمر فاروق کا کہنا ہے ’سال 2013ء سے اونٹنی کے دودھ کی ڈیمانڈ میں تیزی آرہی ہے۔ پہلے شہر میں خال خال جگہوں پر ہی ایک یا دو دکانیں تھیں مگر اب شہر کے تقریباً ہر حصے میں اونٹنی کا دودھ بک رہا ہے۔‘
فریسکو چوک پر واقع ’مرحبا کیمل ملک‘ شاپ پر ٹھنڈے دودھ کی بوتل کا مزہ لینے والے جبار نے وی او اے کو بتایا: ’اونٹنی کا دودھ ہیلتھ سپلیمنٹ کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔ کھانے میں موجود تمام غذائیت ہے اس میں۔‘
اسی دکان کے مالک نے تو یہاں تک دعویٰ کردیا کہ ’اونٹنی کا دودھ ماں کے دودھ کا اصل نعم البدل ہے۔‘
انہوں نے پوچھنے پر بھی اپنا نام ظاہر نہیں کیا۔ لیکن انہوں نے اونٹنی کے دودھ سے دور ہونے والی جن بیماریوں کے نام لئے ان کی فہرست بہت طویل ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اونٹنی کا دودھ ’غذا ۔۔دوا ۔۔ اور شفاء ہے‘۔
ان کے بقول، یہ کینسر، ہیپا ٹائٹس، ڈائبٹیس، کولیسٹرول، پتھری، ٹی بی، لقوہ، فالج، دمہ، ڈینگی، جلدی امراض، گردوں کا سکڑنا، دل کی شریانوں میں چکناہٹ اور ہڈیوں کا بھربھرا پن سمیت تقریباً دو درجن بیماریوں کا قدرتی علاج ہے۔
جن بچوں کو دودھ کا ذائقہ پسند نہیں ان کے لئے چاکلیٹ اور اسٹابیری فلیور میں بھی موجود ہے۔ اونٹنی کا دودھ پسندکرنے والے ایک گاہک علی حیدر کا کہنا ہے کہ وہ اور ان کے اہل خانہ ہفتے میں ایک دو بار یہ دودھ ضرور پیتے ہیں۔
اونٹنی کے دودھ کی بڑھتی ہوئی ڈیمانڈ کا حال یہ ہے کہ آپ کو مختلف چیزوں کی خریداری کامفت مشورہ دینے والی ایک بڑی ویب سائٹ ’او ایل ایکس ڈاٹ کام‘ پر بھی اس کے اشتہارات مل جائیں گے۔ انہیں اشتہارات میں سے ایک اشتہار میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ وہ خالص دودھ فروخت کرتے ہیں جبکہ مارکیٹ میں گائے، بھینس اور بکری کے دودھ کی ملاوٹ والا اونٹنی کا دودھ بھی ملتا ہے۔
سعودی عرب، صومالیہ، کینیا، آسٹریلیا اور امریکہ میں بھی چرچے
کراچی سے بڑے پیمانے پر دبئی اور دیگر خلیجی ممالک اور پھر وہاں سے پاکستان فوڈ اسٹف درآمد اور برآمد کرنے والی فرم ثمرہ فوڈ اسٹف کے مالک طارق اسلم اور منیجر محسن نے وائس آف امریکہ کو بتایا ’اس وقت سب سے زیادہ اونٹنی کا دودھ پیدا کرنے والے ممالک میں سعودی عرب اور صومالیہ سرفہرست ہیں، جبکہ کینیا، آسٹریلیا اور امریکہ میں بھی اونٹنی کے دودھ کی ڈیمانڈ بڑھ رہی ہے۔‘
طارق اسلم کا کہنا ہے کہ پاکستان میں صرف اونٹنی کا دودھ ہی مشہور نہیں ہو رہا، بلکہ اس دودھ سے بنی اشیا جیسے چاکلیٹس اور دیگر فلیورڈ پروڈکس کی ڈیمانڈ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اب تو مقامی تاجروں کوغیر ممالک سے بھی آرڈرز ملنے لگے ہیں۔
البتہ کچھ حد درجہ نفاست پسند افراد کھلے عام اور بغیر کسی احتیاطی تدابیر کے اور پلاسٹک کی عام بوتلوں اور تھیلوں میں دودھ کی فروخت کو’ان ہائی جینک‘ قرار دے رہے ہیں۔ کچھ مبصرین کو اس کی قیمت پر اعتراض ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ 200روپے لیٹر اونٹنی کا دودھ پینے سے بہتر ہے مچھلی یا اسی قسم کی کوئی اور خوراک کھالی جائے۔ ان کے بقول ’ویسے بھی یہ ایسے دام ہیں جو ایک عام اور غریب آدمی کی برداشت سے باہر ہیں۔ غریب آدمی تو 75روپے کلو کا بھینس کا دودھ لیتے ہوئے بھی ہچکچاتا ہے۔‘
دس کروڑ ڈالر کا بزنس
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے برائے خوراک و زراعت کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں اونٹ کے دودھ سے بنی مصنوعات کی کمرشل ویلو میں اضافہ ہورہا ہے ۔ اونٹنی کا دودھ اب آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ بنتاجارہا ہے۔ ادارے کے اندازے کے مطابق دنیا بھر میں پچھلے سال تک اونٹ کے دودھ کی مصنوعات کا حجم 10بلین ڈالر تھا۔
ایڈز کے افریقی مریضوں کے لئے نعمت
امریکی اخبار واشنگٹن نے عالمی ادارے خوراک کی رپورٹ کے حوالے سے لکھا ہے کہ روس، قزاقستان اور بھارت میں ڈاکٹرز اونٹنی کے دودھ کا استعمال بڑھانے پر زور دے رہے ہیں، جبکہ افریقہ میں ایڈز کے مریضوں کے لئے اسے نعمت قرار دیا جا رہا ہے۔
کینیا میں ’کیمل ملک شیک‘ بھی پاپولر
لندن سے شائع ہونے والے اخبار ’گارجین‘ نے اپنی حالیہ رپورٹ میں لکھا ہے کہ کینیا میں اونٹنی کے دودھ کا شیک بہت زیادہ پسند کیا جانے لگا ہے، جبکہ کینیا کی کافی انڈسٹری بھی رفتہ رفتہ اونٹنی کے دودھ سے بنی مصنوعات پر انحصار بڑھا رہی ہے۔