رسائی کے لنکس

امریکی میڈیا اداروں کے افغان کارکنوں کو فوری ویزے دینے کا مطالبہ


جنوبی افغانستان میں ٹیلی ویژن کی ایک خاتون میزبان نے سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے میڈیا انٹرویو کے دوران چہرہ ڈھانپ رکھا ہے
جنوبی افغانستان میں ٹیلی ویژن کی ایک خاتون میزبان نے سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے میڈیا انٹرویو کے دوران چہرہ ڈھانپ رکھا ہے

امریکہ کے دو درجن سے زائد میڈیا اداروں اور آزادی صحافت کی تنظیموں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ان افغان شہریوں کی مدد کی جائے جو غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے ساتھ کام کرچکے ہیں، اور جس کے نتیجے میں انہیں طالبان سے خدشات لاحق ہو سکتے ہیں۔

امریکہ کے صدر جوبائیڈن، ایوانِ نمائندگان اور سینیٹ کے قائدین کو لکھے گئے خطوط میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ خبروں کے امریکی اداروں کے ساتھ کام کرنے والے مقامی صحافیوں اور فری لانس نامہ نگاروں کے لیے ہنگامی طور پر ویزا پروگرام تشکیل دیا جائے۔

خط ​میں کہا گیا ہے کہ امریکی میڈیا کے ساتھ وابستگی کے باعث طالبان متعدد میڈیا کارکنون کو انتقام کا نشانہ بنا سکتے ہیں۔

افغانستان ان ملکوں میں شامل ہے جنہیں میڈیا کے لیے خطرناک ترین قرار دیا جاتا ہے۔ تاہم، ستمبر 2020ء میں افغان حکومت اور طالبان کے مابین امن مذاکرات اور امریکی فوج کے انخلا کے اقدام کے نتیجے میں انہیں انتقامی کاروائی کا خوف ہے۔

چئیرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف نے بدھ کے روز بتایا کہ امن مذاکرات کے آغاز سے اب تک کم از کم 10 افغان صحافیوں اور میڈیا کارکنون کو ہلاک کیا گیا ہے، جب کہ درجنوں میڈیا کارکن افغانستان کا شمالی علاقہ چھوڑ کر جا چکے ہیں، جہاں طالبان نے قبضہ جما لیا ہے۔

پینٹاگان کے مطابق ملک کے تقریباً نصف اضلاع پر اب طالبان قابض ہیں۔

کانگریس کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ ایک طویل عرصے سے طالبان صحافیوں کو دھمکیاں دیتے رہے ہیں اور انہیں ہلاک کیا گیا ہے۔

خط پر دستخط کرنے والے میڈیا اداروں نے امریکہ پر زور دیا ہے کہ افغانستان میں موجود تقریباً 1000 میڈیا ورکرز اور ان کے اہل خانہ کی فوری مدد کا بندو بست کیا جائے، بالکل اسی طرح جیسا کہ امریکی حکومت نے امریکی فوج کی مدد کرنے والوں کے لئے کیا ہے۔

خط میں اس جانب بھی توجہ مبذول کرائی گئی ہے کہ سن 2008 میں امریکہ نے اسی نوعیت کا ایک منصوبہ جاری کیا تھا جس کا مقصد ان عراقیوں کی مدد کرنا تھا جنہوں نے امریکی میڈیا کا ساتھ دیا تھا۔

ریڈیو ٹیلی ویژن ڈیجیٹل نیوز ایسوسی ایشن کے انتظامی سربراہ، ڈین شیلی بھی مراسلے پر دستخط کرنے والوں میں شامل ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ یہ سیاسی معاملہ نہیں، بلکہ یہ انسانی حقوق اور انسانی تحفظ کا معاملہ ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو روزانہ اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالتے رہے ہیں، اس لیے ان کی مدد امریکی حکومت کا فرض بنتا ہے۔

طالبان یہ الزام مسترد کرتے ہیں کہ وہ آزادانہ طور پر کام کرنے والے میڈیا کو نشانہ بناتے ہیں۔ انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ انہوں نے صرف سرکاری تحویل والے اداروں پر قبضہ کیا ہے اور صحافیوں سے کہا ہے کہ وہ بدستور اپنے فرائض انجام دیتے رہیں۔

XS
SM
MD
LG