رسائی کے لنکس

بھارت: 'شہریت قانون' کے خلاف احتجاج، طلبہ اور پولیس میں جھڑپیں


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت میں رواں ہفتے بنائے گئے 'شہریت قانون' کے خلاف دارالحکومت دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے نزدیک پُر تشدد احتجاج متعدد سرکاری بسیں نذر آتش کر دی گئیں۔

شہریت قانون کے خلاف احتجاج اور مظاہرے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے کیمپس کے قریب کے علاقوں پاش کالونی اور نیو فرینڈس کالونی میں ہوئے جب کہ ایک مظاہرہ یونیورسٹی کی دوسری جانب بھی کیا گیا۔

بھارتی نشریاتی ادارے 'این ڈی ٹی وی' کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کانگریس پارٹی کی سینئر رہنما پریانکا گاندھی نے دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میں متنازع ترمیمی شہریت کے قانون پر پولیس اور طالب علموں کے درمیان تصادم پر اپنے بیان میں حکومت کو بز دل قرار دیا ہے۔

پریانکا گاندھی نے ہندی زبان میں اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ پولیس یونیورسٹیوں میں داخل ہو رہی ہے اور طالب علموں کو مار پیٹ رہی ہے۔ بی جے پی کی حکومت شمال مشرقی بھارت، اتر پردیش اور دہلی میں طالب علموں اور صحافیوں کی آواز دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ ایک بزدل حکومت ہے۔

وزیرِ اعظم نریندرمودی کو انتباہ کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ نوجوانوں کی آواز کو دبایا نہیں جا سکتا۔ یہ حکومت عوام کی آواز سے خوف زدہ ہے۔ یہ حکومت آمریت کے ذریعے اس ملک کے نوجوانوں کی آوازیں گھونٹ دینا چاہتی ہے۔

عینی شاہدین کے مطابق مظاہرین نے سرکاری بسوں اور عام لوگوں کی گاڑیوں پر پتھراؤ کیا جس سے ان کو نقصان پہنچا۔

پریانکا گاندھی ۔ فائل فوٹو
پریانکا گاندھی ۔ فائل فوٹو

پولیس کا کہنا ہے کہ کچھ مظاہرین آگ لگانے کے ارادے سے تیاری کر کے کیمپس آئے تھے اور پولیس اہل کار یونیورسٹی کیمپس میں مظاہرین کے تشدد کے بعد صورت حال پر قابو پانے کے لیے داخل ہوئی۔

اطلاعات کے مطابق پولیس نے لائبریری میں موجود طلبہ کے خلاف کارروائی شروع کر دی جب کہ متعدد طلبہ کو حراست میں بھی لیا گیا۔ اس دوران کئی طلبہ زخمی بھی ہوئے۔

دوسری جانب طلبہ کا کہنا تھا کہ پولیس نے جامعہ کیمپس میں داخل ہو کر پر امن مظاہرے کے دوران لاٹھی چارج کیا جبکہ آنسو گیس کے شیل فائر کیے۔

علاوہ ازیں پولیس نے جامعہ نگر کے علاقے کا بھی محاصرہ کیا۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ کی وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر نجمہ اختر نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان مظاہروں میں یونیورسٹی کے طلبہ شامل نہیں تھے۔ انہوں نے آج کسی مظاہرے کی کال نہیں دی تھی۔

پروفیسر ڈاکٹر نجمہ اختر نے یہ بھی کہا کہ انہیں طلبہ کے خلاف پولیس کارروائی کی اطلاع ملی ہے۔ انہوں نے پولیس سے درخواست کی کہ چونکہ طلبہ پرتشدد مظاہرے میں شامل نہیں تھے اس لیے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے۔

جامعہ ملیہ کے اساتذہ کی ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری پروفیسر ماجد جمیل نے بھی ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے جامعہ کے طلبہ کے مظاہرے میں شامل ہونے کی ترید کی۔

پروفیسر ماجد جمیل کا کہنا تھا کہ جامعہ کے کیمپس کے اندر مظاہرہ ہوا لیکن وہ پرامن تھا۔

ان کے بقول جامعہ کے طلبہ تشدد میں شامل نہیں ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس میں باہر کے لوگوں کا ہاتھ ہے۔

جامعہ ملیہ کی انتظامیہ نے 14 دسمبر کو ہی پانچ جنوری تک کی تعطیل کا اعلان کر دیا تھا۔ طلبہ کے امتحانات بھی ملتوی کر دیے گئے ہیں۔

خبر رساں ادارے 'اے این آئی' کے مطابق بی بی سی کی نمائندہ بشری شیخ نے الزام عائد کیا ہے کہ وہ کوریج کے لیے جامعہ میں گئی تھیں، ایک مرد پولیس نے ان کو ڈنڈے مارے، ان کے بال پکڑ کے کھینچے اور گالیاں دیں اور ان کا موبائل چھین کر توڑ دی۔

دہلی پولیس کا کہنا ہے کہ مظاہرین نے پتھراؤ کیا جس کے بعد پولیس نے کارروائی کی. اس دوران پولیس کے 6 جوان زخمی ہوئے تاہم اب حالات قابو میں ہیں.

ٹیچرز ایسوسی ایشن اور طلبہ کی جانب سے تشدد کی مذمت کی گئی ہے۔

دہلی فائر سروس کے مطابق طلبہ نے آگ بجھانے والی گاڑیوں کا راستہ بند کیا اور ایک گاڑی پر پتھراو بھی کیا جس میں دو فائرمین زخمی ہوئے۔

دہلی ٹریفک پولیس کے مطابق ہنگامہ آرائی کے باعث آس پاس کی سڑکیں بند کر دی گئی تھیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG