برما کی زیر حراست جمہوریت نواز راہنما آنگ ساں سوچی نے کہا ہے کہ اگرچہ ملک کے فوجی حکمرانوں نے ان کا نام اہل ووٹرز کی فہرست میں شامل کردیا ہے لیکن وہ اگلے ماہ ہونے والے انتخابات میں اپنے ووٹ کا حق استعمال نہیں کریں گی۔
منگل کے روز ان کے وکیل نے نامہ نگاروں کوبتایا کہ وہ یہ سمجھتی ہیں کہ ووٹروں کی فہرست میں ان کے نام کی شمولیت قانون سے مطابقت نہیں رکھتی کیونکہ انہیں حراست میں رکھا جارہاہے۔
برما کا قانون قید کاٹنے والوں کو ووٹ دینے سے روکتا ہے۔ آنگ ساں سوچی ان دنوں اپنے گھر میں 18 ماہ کی قید کاٹ رہی ہیں ، جو انہیں ایک امریکی کو مختصر وقت کے لیے اپنے گھر میں ایک امریکی پناہ دینے پر سنائی گئی تھی جو بن بلائے گھس آیاتھا۔ ان کی رہائی سات نومبر کو ہونے والے انتخابات کے چھ دن کے بعد ہوگی۔
آنگ ساں سوچی کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے 1990ء میں ہونے والا پچھلا الیکشن جیتا تھا ، لیکن فوجی حکمرانوں نے انہیں اقتدار سنبھالنے کی اجازت نہیں دی۔ حکومت نے اس سال مئی میں، انتخابات کے لیے خود کو رجسٹر کرانے میں ناکامی کے بعد ان کی جماعت پر پابندی لگادی تھی۔
آنگ ساں سوچی کے وکیل نیان ون نے کہا کہ چونکہ ان کی جمہوریت نواز پارٹی الیکشن میں حصہ نہیں لے رہی اس لیے ووٹ کی اجازت ہونے کے باوجود ان کے پاس ووٹ دینے کے لیے پارٹی موجود نہیں ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں مجوزہ انتخابات کو جاری فوجی حکمرانی پرسویلین چہرہ ڈالنے کی ایک کوشش کے طورپر دیکھ رہی ہیں۔
برما کے انتخابات میں فوج کی حمایت یافتہ یونین سولیڈیرٹی اینڈ ڈیولمپنٹ پارٹی سمیت 37 جماعتیں حصہ لے رہی ہیں۔ جن کے درمیان 1157 نشستوں پر مقابلہ ہوگا، جن میں یونین پارلیمنٹ کی 494 نشستیں شامل ہیں۔ قومی اسمبلی کی ایک چوتھائی نشستیں پہلے ہی فوج کے لیے مختص ہیں۔