برما کی حکومت نے حزبِ اختلاف کی مرکزی رہنما اور جمہوریت پسند سیاست دان آنگ سان سوچی کو پاسپورٹ جاری کردیا ہے جس کے بعد گزشتہ 24 برسوں میں پہلی بار ان کے بیرونِ ملک جانے کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔
سوچی کی جماعت 'نیشنل لیگ فا ر ڈیموکریسی' کے عہدیدار کے مطابق خاتون رہنما کو منگل کو رنگون شہر میں پاسپورٹ موصول ہوا ہے جو آئندہ تین برسوں کے لیے کارگر ہے۔
پاسپورٹ کے اجرا کے بعد امید ہوچلی ہے کہ عالمی شہرتِ یافتہ خاتون رہنما آئندہ ماہ اپنے مجوزہ دورہ یورپ پر روانہ ہوسکیں گی۔
امکان ہے کہ سوچی جون میں ناروے کے دارالحکومت اوسلو پہنچیں گی جہاں وہ 1991ء میں انہیں دیا جانے والا امن کا 'نوبیل' انعام وصول کریں گی۔
یا رہے کہ سوچی نے گزشتہ دو دہائیوں کا بیشتر وقت فوجی حکام کے احکامات کے تحت اپنی رہائش گاہ پر نظر بندی میں گزارا ہے جہاں سے انہیں 2010ء کے اواخر میں رہائی ملی تھی۔
اپنے مجوزہ دورے کے دوران میں سوچی برطانیہ جانے کا بھی ارادہ رکھتی ہیں جہاں وہ 1988ء میں وطن واپسی سے قبل کئی برسوں تک اپنے آنجہانی شوہر اور دو بیٹوں کے ہمراہ مقیم رہ چکی ہیں۔
سنہ 1988 میں برما میں بڑے پیمانے پر جمہوریت کے حق میں ہونے والے عوامی مظاہروں کی قیادت کے لیے سوچی برطانیہ سے واطن واپس لوٹ گئی تھیں۔
وطن واپسی کے بعد انہیں اپنا پاسپورٹ فوجی حکام کو واپس دینا پڑا تھا اور اس وقت کے بعد سے وہ اس خدشے کے تحت بیرونِ ملک جانے سے انکار کرتی آئی ہیں کہ ملک کے فوجی حکمران انہیں وطن واپسی کی اجازت نہیں دیں گے۔
سوچی کو پاسپورٹ کی واپسی گزشتہ برس اقتدار میں آنے والی اس برائے نام سول حکومت کے ان اقدامات کا حصہ ہے جو وہ ملک میں جمہوریت کے فروغ کے لیے کر رہی ہے تاکہ مغربی ممالک کو برما پر عائد اقتصادی پابندیاں اٹھانے پر آمادہ کیا جاسکے۔
صدر تھین سین کی حکومت کے ان اقدامات سے متاثر ہوکر امریکہ اور یورپی یونین نے برما پر عائد بعض پابندیاں اٹھانا شروع کردی ہیں۔ لیکن مغربی حکومتوں کا اصرار ہے کہ تمام پابندیوں کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ برما کی حکومت اصلاحات کے نفاذ کا عمل جاری رکھے اور ان تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی یقینی بنائے جنہیں پانچ عشروں طویل فوجی حکومت نے قیدی بنایا تھا۔