برما میں جمہوریت کی علامت سمجھی جانے والی رہنما آنگ سان سوچی نے کہا ہے کہ ملک میں سیاسی تبدیلی کے آثار نمودار ہوئے ہیں لیکن عوام حقیقی آزادی حاصل کرنے سے تاحال بہت دور ہیں۔
ایک فرانسیسی نیوز ایجنسی سے انٹرویو میں نوبیل انعام یافتہ رہنما نے کہا کہ عرب دنیا میں جاری حکومت مخالف تحریکوں جیسی کوئی کوشش برما کے مسائل کا حل نہیں۔
رنگون میں اپنی جماعت ’نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی‘ کے دفاتر میں دیے گئے انٹرویو میں آنگ سان سوچی نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ برما میں ہمت و حوصلے کے انقلاب کی ضرورت ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ جب تک حکام مسائل کے بارے میں اپنی سوچ نہیں بدلیں گے، حقیقی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں۔
برما کی فوجی حکومت کی طرف سے گزشتہ سال کرائے گئے انتخابات میں دھاندلی کی بڑے پیمانے شکایات موصول ہوئی تھیں، اور مارچ میں اعلان کیا گیا کہ اقتدار سولین حکومت کو منتقل کیا جا رہا ہے جس میں اکثریت سابق فوجی عہدے داروں کی ہے۔
حالیہ ہفتوں میں نئی انتظامیہ نے اپنے ناقدین سے رابطے کیے ہیں اور گزشتہ ماہ آنگ سان سوچی نے صدر تھیئن سیئن سے ملاقات کی۔ نومبر میں نظر بندی ختم ہونے کے بعد اُن کے اور حکومت کے درمیان یہ اعلیٰ ترین مذاکرات تھے۔