برما کی حزبِ مخالف کی ایک بڑی جماعت نے کہا ہے کہ ملک پر عائد معاشی پابندیوں میں نرمی اور ان کے خاتمے کےلیے مغربی ممالک سے مذاکرات کرے گی۔
امن کی نوبیل انعام یافتہ خاتون سیاستدان آنگ سان سوچی کی جماعت ’نیشنل لیگ فار ڈیمو کریسی‘ کی جانب سے منگل کے روزجاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ برما پر عائد عالمی پابندیوں میں نرمی کے لیے امریکہ، یورپی یونین اور دیگر عالمی طاقتوں کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہتی ہے۔
عالمی طاقتوں اور مغربی ممالک نے برما کی فوجی حکومت کی جانب سے انسانی حقوق کی پامالی کے ردِ عمل میں اس پر 1990ءسے معاشی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں جن کا دائرہ ہتھیاروں کی فراہمی سے تجارتی پابندیوں تک پھیلا ہوا ہے۔
جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم ’آسیان‘ برما پر عائد عالمی پابندیاں اٹھانے کی حمایت کرتی رہی ہے۔
علاقائی مبصرین کا کہنا ہے کہ عالمی پابندیوں کے باعث برما کی معیشت تباہ ہوچکی ہے ۔ جب کہ ان پابندیوں کے ردعمل میں برمی حکومت کا جھکاؤ چین کی طرف ہوگیا ہے جو خطے کی ایک بڑی طاقت کے ناطے برما پر عائد مغربی پابندیوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس ملک میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کررہا ہے جو قدرتی وسائل سے مالامال ہے۔
گذشتہ دو عشروں کے دوران مغربی ممالک نے برما پر کئی پابندیاں عائد کیں تھیں جن کا مقصد ملک فوجی حکمرانوں یہ دباؤ ڈالنا تھا کہ وہ انسانی حقوق کی صورت حال بہتر بنائیں اور ملک میں سیاسی اصلاحات لائیں ۔ امریکہ نے 1993ء میں جبکہ یورپی یونین نے 1996 ءمیں برما کو ہر قسم کے ہتھیاروں کی فراہمی پر مکمل پابندی عائد کردی تھی۔
2003 میں امریکہ نے برما سے لکڑی اور جواہرات سمیت ہر قسم کی براہِ راست درآمدات کے علاوہ اس کے ساتھ مالی لین دین پر بھی پابندیاں عائد کردی تھیں۔
تاہم چین، بھارت اور خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ تجارت اور ان کی سرمایہ کاری کی وجہ سے برما پر ان پابندیوں کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوسکے ہیں۔
آنگ سان سوچی اور ان کی جماعت ماضی میں برما پر عائد پابندیوں کی حمایت کرتے آئی ہے۔ تاہم منگل کے روز این ایل ڈی کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ مغربی طاقتوں کے ساتھ اس موضوع پر مذاکرات کی خواہش مند ہے کہ’برما پر عائد پابندیوں کو کب، کس طرح اور کن شرائط‘ پر اٹھایا جاسکتا ہے۔
تاہم بیان میں واضح کیا گیا ہے کہ برما پر عائد معاشی پابندیوں میں اس وقت تک کوئی تبدیلی نہیں کی جانی چاہیے جب تک فوجی جنتا ملکی جیلوں میں قید دو ہزار سے زیادہ سیاسی قیدیوں کو رہا نہ کردے۔
نائب امریکی سیکرٹری خارجہ برائے مشرقی ایشیا کرٹ کیمپبیل برما پر عائد پابندیاں اٹھانے کی تجویز کو گزشتہ ہفتے ’قبل از وقت‘ قرار دے چکے ہیں۔ کیمپبیل کا کہنا ہے کہ امریکہ برمی حکومت کی جانب سے ملک میں مزید اصلاحات متعارف کرائے جانے کا خواہش مند ہے۔