برما کے حزبِ مخالف کی رہنما آنگ سان سوچی نے فوجی اقتدار کے خلاف 1988ء میں ہونےو الی ناکام بغاوت میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں منعقدہ ایک تقریب میں شرکت کی ہے جسے ان کی جانب سے حکومت کو کھلا چیلنج قرار دیا جارہا ہے۔
پیر کو ہونے والی تقریب "88-8-8" کے نام سے معروف اس بغاوت کی 23 ویں سالگرہ کے موقع پر منعقد کی گئی جس کے نتیجے میں سوچی کو برما کی جمہوری تحریک کی رہنما کی حیثیت سے ابھرنے کا موقع ملا تھا۔
اپنے خطاب میں عالمی شہرتِ یافتہ رہنما نے تقریب کے 400 شرکاء پر زور دیا کہ وہ 1988ء کی تحریک کے خلاف حکومتی کارروائی کو یاد رکھیں جس کے نتیجے میں تین ہزار کے لگ بھگ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
تقریب سے ایک روز قبل امن کی نوبیل انعام یافتہ سوچی نے اعلان کیا تھا کہ وہ آئندہ ہفتے سے دارالحکومت رنگون کے علاوہ ملک کے دیگر علاقوں کا سیاسی دورہ کریں گی۔ ان کا یہ اعلان فوج کی حمایت یافتہ حکومت کے اس انتباہ کے باوجود سامنے آیا ہے جس میں ان سے تمام سیاسی سرگرمیاں روکنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
سوچی کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ برمی رہنما اتوار کو رنگون سے 80 کلومیٹر دور واقع شہر باگو کا دورہ کریں گی جہاں وہ دو کتب خانوں کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے علاوہ سیاسی رابطہ کار گروپوں کے نمائندوں سے ملاقاتیں کریں گی۔
واضح رہے کہ آنگ سان سوچی کی جماعت 'نیشنل لیگ فار ڈیمو کریسی' نے 88ء کی بغاوت کے دو برس بعد 1990ء میں ہونےو الے عام انتخابات میں شاندار کامیابی حاصل کی تھی تاہم فوجی جنتا نے اسے اقتدار منتقل نہیں کیا تھا۔
ادھر لندن سے جاری ہونے والے ایک بیان میں برطانوی وزیرِخارجہ ولیم ہیگ نے کہا ہے کہ یہ امر باعثِ افسوس ہے کہ 1988ء کی تحریک کے 23 برس بعد بھی برمی سیاسی کارکنان ملک میں جمہوریت کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔
برطانوی وزیرِخارجہ نے آنگ سان سوچی کو آزاد اور جمہوری برما کے حصول کے مقصد کے لیے اپنی حکومت کی حمایت کا یقین دلاتے ہوئے کہا کہ صرف ملک کے نسلی اور سیاسی گروہوں کے ساتھ حقیقی مفاہمت ہی برما کو مستحکم کرسکتی ہے۔
دریں اثناء انسانی حقوق کی تنظیموں نے تحریک کی 23 ویں سالگرہ کے موقع پر برمی حکمرانوں کی جانب سے انسانیت کے خلاف جرائم کے مبینہ ارتکاب کی تحقیقات کے لیے ایک آزادانہ عالمی کمیشن کے قیام کے مطالبہ کو دہرایا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم 'کرسچن سولیڈیرٹی انٹرنیشنل" نے یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کو ایک خط لکھا ہے جس میں تنظیم نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس کے دوران برما کی صورتِ حال پر پیش کی جانے والی مجوزہ قرارداد پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
ادھر فلپائن کے دارالحکومت منیلا میں 'فری برما کولیشن' نامی تنظیم کے رضاکاروں نے دفترِ خارجہ کے سامنے مظاہرہ کیا۔ مظاہرہ کا مقصد فلپائنی صدر بینگینو اکینو پر کمیشن کے قیام کے لیے جاری مہم کی حمایت کے لیے دباؤ ڈالنا تھا۔
امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور 12 یورپی ممالک پہلے ہی کمیشن کے قیام کے مطالبے کی حمایت کر چکے ہیں جس کی تجویز اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق سے متعلق تفتیش کار ٹامس کنتانا نے پیش کی تھی۔