برما کے حکام نے تاریخ میں پہلی بار نہ صرف یہ تسلیم کیا ہے کہ 1988ء میں ملک میں جمہوریت کی حمایت میں تحریک چلی تھی بلکہ کسی حد تک اس کی حمایت بھی کی ہے۔ حزب اختلاف کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے اس تبدیلی کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے قومی مفاہمت کی ایک علامت قرار دیا ہے۔ لیکن سرگرم کارکنوں کا کہناہے کہ ابھی مزید اصلاحات کی ضرورت ہے۔
جمہوریت کی حمایت میں چلائی جانے والی ناکام تحریک کی 24 ویں سالگرہ منانے کے لیے بدھ کے روز رنگون میں سینکڑوں جمہوریت نواز کارکنوں اور بھکشوؤں نے ایک دعائیہ تقریب میں شرکت کی۔
تاریخ میں پہلی بار میں برما کے حکام نے نہ صرف جمہوریت کے لیے چلائی جانے والی تحریک کے وجود کوتسلیم کیا بلکہ اس خصوصی دعائیہ تقریب کے انعقاد کے لیے مالی مدد بھی کی۔
برما کے وزیر برائے ریلوے اور صنعت نے ایک بودھ عبادت گاہ میں ہونے والی تقریب کے لیے تقریباً 230 ڈالر کا عطیہ دیا۔انہوں نے تحریک چلانے والی تنظیم کو بھی ، جسے جنریشن 88 کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، ایک ہزار ڈالر سے زیادہ کا عطیہ دیا۔
برما کی حزب اختلاف کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کے ایک ترجمان نے اسے ایک خوشگوار علامت قرار دیا۔
1988ء میں 8 اگست کو رنگون میں طالب علموں نے جمہوریت کے نفاذ کے لیے فوجی حکومت کے خلاف مظاہروں کا آغاز کیاتھا۔
ملک بھر میں ہزاروں افراد نے ان احتجاجی مظاہروں میں شرکت کی حتی کہ فوج نے انہیں سختی سے دبا دیا۔
خیال کیا جاتا ہے کہ مظاہروں پر قابو پانے کی کارروائیوں کے دوران ہزاروں ا فراد ہلاک کردیے گئے اور بے شمار کو جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ جب کہ حکومت کی جانب سے صرف چند سو ہلاکتوں کا اعتراف کیا گیاتھا۔
2010ء کے انتخابات کے نتیجے میں تھین سین ملک کے صدر بنے اور انہوں نے یکے بعد دیگرے کئی سیاسی اصلاحات کرکے اپنے ناقدین کو خوشگوار حیرت میں ڈال دیا۔ ان اصلاحات کے نتیجے میں کئی سو سیاسی قیدیوں کی رہائی بھی عمل میں آئی۔
سیاسی اصلاحات کا سب سے خوشگوار پہلو یہ ہے کہ طویل عرصے تک قید میں رہنے والی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کے لیڈر آنگ ساں سوچی پارلیمنٹ کی رکن منتخب ہوگئیں اور ان کی جماعت نے ضمنی انتخابات میں شاندار کامیابی حاصل کی۔
جمہوریت کے لیے 24 سال قبل پہلی بار تحریک چلانے اور قید و بند کی صعبتیں برداشت کرنے والی جنریشن 88 نے باقی ماندہ سیاسی قیدیوں کی رہائی اور اپنی جانیں بچانے کے لیے جلاوطنی اختیار کرنے والے سرگرم کارکنوں کو وطن واپسی کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
جمہوریت کی حمایت میں چلائی جانے والی ناکام تحریک کی 24 ویں سالگرہ منانے کے لیے بدھ کے روز رنگون میں سینکڑوں جمہوریت نواز کارکنوں اور بھکشوؤں نے ایک دعائیہ تقریب میں شرکت کی۔
تاریخ میں پہلی بار میں برما کے حکام نے نہ صرف جمہوریت کے لیے چلائی جانے والی تحریک کے وجود کوتسلیم کیا بلکہ اس خصوصی دعائیہ تقریب کے انعقاد کے لیے مالی مدد بھی کی۔
برما کے وزیر برائے ریلوے اور صنعت نے ایک بودھ عبادت گاہ میں ہونے والی تقریب کے لیے تقریباً 230 ڈالر کا عطیہ دیا۔انہوں نے تحریک چلانے والی تنظیم کو بھی ، جسے جنریشن 88 کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، ایک ہزار ڈالر سے زیادہ کا عطیہ دیا۔
برما کی حزب اختلاف کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کے ایک ترجمان نے اسے ایک خوشگوار علامت قرار دیا۔
1988ء میں 8 اگست کو رنگون میں طالب علموں نے جمہوریت کے نفاذ کے لیے فوجی حکومت کے خلاف مظاہروں کا آغاز کیاتھا۔
ملک بھر میں ہزاروں افراد نے ان احتجاجی مظاہروں میں شرکت کی حتی کہ فوج نے انہیں سختی سے دبا دیا۔
خیال کیا جاتا ہے کہ مظاہروں پر قابو پانے کی کارروائیوں کے دوران ہزاروں ا فراد ہلاک کردیے گئے اور بے شمار کو جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ جب کہ حکومت کی جانب سے صرف چند سو ہلاکتوں کا اعتراف کیا گیاتھا۔
2010ء کے انتخابات کے نتیجے میں تھین سین ملک کے صدر بنے اور انہوں نے یکے بعد دیگرے کئی سیاسی اصلاحات کرکے اپنے ناقدین کو خوشگوار حیرت میں ڈال دیا۔ ان اصلاحات کے نتیجے میں کئی سو سیاسی قیدیوں کی رہائی بھی عمل میں آئی۔
سیاسی اصلاحات کا سب سے خوشگوار پہلو یہ ہے کہ طویل عرصے تک قید میں رہنے والی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کے لیڈر آنگ ساں سوچی پارلیمنٹ کی رکن منتخب ہوگئیں اور ان کی جماعت نے ضمنی انتخابات میں شاندار کامیابی حاصل کی۔
جمہوریت کے لیے 24 سال قبل پہلی بار تحریک چلانے اور قید و بند کی صعبتیں برداشت کرنے والی جنریشن 88 نے باقی ماندہ سیاسی قیدیوں کی رہائی اور اپنی جانیں بچانے کے لیے جلاوطنی اختیار کرنے والے سرگرم کارکنوں کو وطن واپسی کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا ہے۔