پشاور کی مہ جبین کا کہنا ہے کہ آج اگر وہ اپنی ماسٹرز کی ڈگری جاری رکھنے میں کامیاب ہیں تو اس کی وجہ بی آر ٹی بس سروس ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ان کے والدین ان کی تعلیم جاری رکھنے کے حق میں نہیں تھے کیونکہ انہیں مہ جبین کا عام ویگنوں میں سفر کرنا پسند نہیں تھا۔اگر آج وہ گھریلو کاموں اور شادی کے جھنجھٹ سے دور ہیں تو اس کی وجہ وہ بی آر ٹی کی سروس ہے کیونکہ اس کا سٹاپ ان کے گھر کے نزدیک ہے اور وہ وہاں سے سیدھا یونیورسٹی جا سکتی ہیں۔
پشاور میں 2020 میں شروع ہونے والی بی آر ٹی خواتین میں کافی مقبول ہے۔ شہر میں 2016 میں ہونے والے ایک سروے کے مطابق 90 فی صد خواتین کا کہنا تھا کہ وہ پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے پر خود کو محفوظ محسوس نہیں کرتیں۔
ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق خواتین کا ان بسوں اور ویگنوں میں سفر کے دوران ہراسانی کا شکار ہونا عام ہے۔ عورت کو دیکھ کر سیٹیاں مارنا اور بلا اجازت چھونا عام ہے جس کی وجہ سے بہت سی خواتین اکیلے سفر نہیں کرتیں۔
لیکن بی آر ٹی میں ایک چوتھائی سیٹیں خواتین کے لیے مختص کی گئی ہیں جب کہ سی سی ٹی وی کیمرے، گارڈز اور اسٹیشنوں پر روشنی کا بھی انتظام ہے جس کی وجہ سے خواتین ان بسوں میں سفر کرنے کو محفوظ سمجھتی ہیں۔
بی آر ٹی کو چلانے والی سرکاری کمپنی ٹرانس پشاور کے ترجمان عمیر خان کے مطابق بی آر ٹی کے دو ہزار کے قریب ملازمین میں سے 15 فی صد خواتین ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ان تبدیلیوں کی وجہ سے بی آر ٹی میں سفر کرنے والے افراد میں سے 30 فی صد تعداد خواتین کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ دو برس پہلے یہ تعداد محض دو فی صد تھی۔
لاہور میں قائم سینٹر فار اکنامک ریسرچ کی پراجیکٹ منیجر لالہ رخ خان نے خبررساں ادارے 'رائٹرز 'سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں زیادہ تر خواتین ٹرانسپورٹ کے نظام پر انحصار کرتی ہیں کیونکہ مرد حضرات سائیکل، موٹر سائیکل یا کاریں بھی استعمال کرتے ہیں۔جب کہ عورتوں کی نقل و حرکت میں کافی دشواریاں پیدا ہوتی ہیں۔
لاہور میں واقع لمز یونیورسٹی میں قائم سیدہ وحید جینڈر انیشی ایٹو کی ڈائریکٹر حادیہ ماجد کے مطابق اس سے خواتین کے گھر سے باہر کام کرنے، پروفیشنل اور سماجی رابطے قائم کرنے، اور تفریح کے مواقع حاصل کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
بقول ان کے محفوظ، قابلِ اعتماد اور قابل استطاعت عوامی ٹرانسپورٹ کام کرنے کے قابل افراد کو ملازمتوں کے بہتر مواقع ڈھونڈنے اور اپنی صلاحیتوں کے مطابق ملازمتیں ڈھونڈنے میں مدد دیتی ہے۔
بی آر ٹی کا کرایہ تیس روپے ہے جس کی وجہ سے کم آمدن والے گھرانوں کی خواتین میں بھی یہ بس سروس بہت مقبول ہے۔
ٹرانس پشاور کی ملازم ام سلمیٰ کے مطابق وہ اس سے پہلے ملازمت پر آنے جانے کے لیے روزانہ رکشے اور ویگنوں پر تقریباً تین سو روپے خرچ کرتی تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب نہ صرف ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں انہیں بچت ہو جاتی ہے بلکہ ان کا سفر بھی پہلے سے کم ہو گیا ہے۔
ام سلمہ کہتی ہیں کہ وہ روزانہ 15 منٹ پیدل چل کر بس اسٹیشن تک پہنچتی ہیں مگران کا روزانہ کا سفر آدھا گھنٹہ کم ہو چکا ہے۔
تاہم خواتین کی نظر میں ان کے سفر کو محفوظ بنانے کے لیے ابھی بھی گنجائش باقی ہے۔لالہ رخ کہتی ہیں کہ اسٹریٹ لائٹس کی کمی، پولیس کا دور دراز علاقوں میں چوکس نہ ہونا، پیدل چلنے والوں کے لیے مناسب انفراسٹرکچر اور عوامی ٹائلٹس کی غیر موجودگی عورتوں کے لیے مسائل پیدا کرتی ہیں۔
لیکن بی آر ٹی نظام میں حال ہی میں سفر کرنے والی مدیحہ شاکر کہتی ہیں کہ ان بسوں نے ان کی زندگی بدل دی۔ ان کے بقول ،مجھے عوامی ٹرانسپورٹ میں اکیلے سفر کرنے کی کبھی اجازت نہیں ملی تھی۔ جب میری شادی ہوئی تو میں اپنے شوہر کا انتظار کرتی تھی تاکہ میں بازار تک جا سکوں کیونکہ مجھے اکیلے سفر کرنے سے خوف آتا تھا۔
انہوں نے کہا ’’میں بتا نہیں سکتی اس کی وجہ سے مجھے کتنی آزادی کا احساس ہے۔‘‘
(خبر کا مواد رائیٹرز سے لیا گیا)