رسائی کے لنکس

برطانیہ کا اگلا وزیر اعظم، خواتین آمنے سامنے


اس نتیجے کا مطلب یہ ہے کہ ستمبر کے مہینے میں برطانیہ مارگریٹ تھیچر کے بعد اپنی تاریخ کی دوسری خاتون وزیر اعظم دیکھےگا، جس کا انتخاب ملک بھر سے ٹوری پارٹی کے 150,000 عہدیداران کے ووٹوں سے کیا جائے گا

کنزرویٹیو رہنما کے لیے ووٹنگ کے دوسرے مرحلے کے نتیجے میں آج تھریسا مے کے مقابلے میں اینڈریا لیڈسم حتمی امیدوار کے طور پر سامنے آئی ہیں جس سے یہ بات واضح ہوگئی ہےکہ برطانیہ کی اگلا متوقع وزیر اعظم ایک 'خاتون' ہوں گی۔

برسر اقتدار ٹوری پارٹی کے تین اہم امیدواروں میں سے تھریسا مے اور اینڈریا لیڈسم برطانیہ کے اگلے وزیر اعظم بننے کی جنگ لڑیں گی، جبکہ بریگزٹ مہم چلانے والے اہم سیاست دان مائیکل گو جمعرات کو بڑے پیمانے پر حمایت حاصل کرنے میں ناکام ہونےکے بعد کنزرویٹیو پارٹی کی قیادت کے مقابلے سےخارج ہوگئے ہیں۔

دریں اثنا، بریگزٹ مہم کے قائد لندن کے سابق میئر بورس جانسن جنھیں ڈیوڈ کیمرون کے بعد عوام میں خاصا مقبول خیال کیا جاتا ہے اس دوڑ میں پہلے ہی شامل نہیں ہوئے ہیں۔

قدامت پسند جماعت کی منجھی ہوئی سیاست دان تھریسا مےنے ارکان پارلیمنٹ کے فائنل بیلٹ میں 199 ووٹ حاصل کئے ہیں ان کے مقابلے میں 84 ارکان پارلیمنٹ اینڈریا لیڈسم کو پارلیمانی لیڈر منتخب کرنا چاہتے ہیں اورمائیکل گو 46 ووٹوں کی حمایت کے ساتھ دونوں سے پیچھے ہیں۔

تھریسامے ٹوری پارٹی کی قیادت کی دوڑ میں سب سے مقبول امیدوار ثابت ہوئی ہیں جنھوں نے ٹوری قیادت کے متوقع امیدوار جسٹس سیکریٹری مائیکل گوکو بھاری ووٹوں سے شکست دے کر مقابلے سےباہر کردیا ہے۔

ٹوری پارٹی سربراہ کے انتخاب کے نظام کے تحت کم حمایت یافتہ امیدواروں کی چھانٹی کے بعد یورپی یونین میں رہنے کی حامی وزیر داخلہ تھریسا مے اور بریگزٹ مہم چلانے والی وزیر توانائی اینڈریا لیڈسم بیلٹ پیپر پرحتمی امیدوار ہوں گی، جس کے ذریعے اگلے وزیر اعظم کا فیصلہ ہوگا۔

مقررہ حتمی نتیجے کے ساتھ یہ واضح ہوگیا ہے کہ وزیر اعظم کے دفتر ٹین ڈاوننگ میں برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی جگہ سنبھالنے کے لیے تھریسا مئے زیادہ بہتر پوزیشن میں ہیں۔

اس نتیجے کا مطلب یہ ہے کہ ستمبر کے مہینے میں برطانیہ مارگریٹ تھیچر کے بعد اپنی تاریخ کی دوسری خاتون وزیر اعظم دیکھےگا جس کا انتخاب ملک بھر سے ٹوری پارٹی کے 150,000عہدیداران کے ووٹوں سے کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ برطانوی عوام نے برطانیہ کے یورپی یونین میں مستقبل کےحوالے سے 23جون کے عوامی ریفرینڈم میں یورپی اتحاد سے علیحدگی کا فیصلہ کیا تھا جس کے بعد وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے اپنے منصب سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ اکتوبر میں ان کی جگہ ایک نیا وزیر اعظم سنبھالے گا۔

کنزرویٹیو پارٹی کے اگلے سربراہ کا فیصلہ پارٹی کے عہدیدارن ایک پوسٹل بیلیٹ کے ذریعے کریں گے جبکہ اینڈریا لیڈسم اور تھریسا مے کے درمیان فاتح کا اعلان 9 ستمبر تک کیا جائے گا۔

تھریسا مے: تھریسا مے برطانوی سیاست کا ایک جانا پہچانا چہرہ ہیں۔ انھوں نے سیاست میں آنے سے پہلے بنک آف انگلینڈ میں کام کیا ہے ۔وہ 1997 میں پہلی بار رکن پارلیمان منتخب ہوئیں جبکہ 2010 سے وزارت داخلہ کا قلمدان سنبھال رہی ہیں انھیں برطانیہ کی تاریخ میں طویل عرصے تک وزیر داخلہ رہنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

اگرچہ تھریسا مے یونین کی حمایت کی مہم چلائی تھی تاہم انھوں نے ریفرینڈم مہم کے دوران کم گرمجوشی کا مظاہرہ کیا تھا جس کی وجہ سے انھیں لیو کیمپ کے ساتھیوں کی حمایت بھی حاصل ہوئی ہے۔

اسکائی نیوز کے مطابق پارلیمانی ساتھیوں سے زیادہ ووٹ جیتنے کے بعد تھریسا مے نے ایک بیان میں کہا کہ برطانیہ کو علحیدگی کے مراحل طے کرنے کے لیے یورپی یونین سے مذاکرات طے کرنے اور ملک کو متحد کرنے کے لیے ایک مضبوط قیادت کی ضرورت ہے۔

انھوں نے کہا کہ میں اپنے ساتھیوں کی طرف سے حمایت حاصل کرنے پرخوش ہوں جس سے یہ پتا چلتا ہے کہ کنزرویٹیو پارٹی ایک دوسرے کے ساتھ آگے چل سکتی ہے اور یہ میری قیادت میں ہوگا۔

تھریسا مے نے واضح طور پر کہا تھا کہ اس وقت برطانیہ میں رہنے والے یورپی یونین کے تارکین وطن کے برطانیہ میں رہنے کے بارے میں کوئی وعدہ نہیں کیا جاسکتا ہے انھوں نے اندیشہ ظاہر کیا تھا کہ اس فیصلے سے ملک میں تارکین وطن کی آمد کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔

اینڈریا لیڈسم : بریگزٹ کی حمایت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اگلا وزیر اعظم لیو کیمپ سے ہونا چاہیئے جو عوام کی خواہشات پر عمل کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نا کرئے اسی تناظر میں یونین چھوڑنے کی حمایت کرنے والی سیاست دان تھریسا مے سے مقابلے کے لیے ایک مضبوط امیدوار کے طور پر سامنے آئی ہیں۔

اینڈریا لیڈسم نے 25 سالہ شہری خدمات سے منسلک رہنے کے بعد 2010 میں رکن پارلیمان منتخب ہوئیں ۔ عام انتخابات کے بعد انھیں توانائی کا قلمدان سونپا گیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ وہ امید کی آواز ہیں انھوں نے ہزاروں لوگوں سے یہ وعدہ بھی کیا ہے کہ انھیں یورپی یونین چھوڑنے کے فیصلے سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

مائیکل گو : سابق وزیر تعلیم مائیکل گو 2005 میں رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے تھے وہ ٹوری کے ایک سنجیدہ سیاست دان کی طور پر پہچانے جاتے ہیں وہ ڈیوڈ کیمرون کے خاص دوستوں میں رہے ہیں۔ تاہم، انھوں نے یورپی یونین چھوڑنے کے لیے مہم چلائی تھی جس سے وزیر اعظم کے ساتھ ان کے تعلقات متاثر ہوئے ہیں۔

انھوں نے پارٹی قیادت کی دوڑ سے خارج ہونے کے بعد ایک بیان میں کہا کہ قدرتی طور پر اس نتیجے سے مایوسی ہوئی ہے۔ تاہم، ان کا کہنا تھا کہ تھریسا مے اور اینڈریا لیڈسم حتمی مقابلے کے لیے زیادہ مضبوط اور مستحق امیدوار ہیں۔

XS
SM
MD
LG