مڈ لینڈز سے تعلق رکھنے والی پاکستانی نژاد برطانوی عینی زیدی برطانیہ کی پہلی جنوبی ایشیائی خاتون فٹ بال کوچ ہیں، جنھوں نے اسپورٹس 'وومن آف دا ائیر 2015ء کا ایک ٹاپ ایوارڈ اپنے نام کیا ہے۔
عینی زیدی نے حال ہی میں سنڈے ٹائمز اور اسکائی نیوز کی طرف سے اسپورٹس وومن آف دا ائیر کے لیے ٹیلی وژن کی پہلی اسپورٹس صحافی کے نام سے منسوب 'ہیلن رولاسن' ایوارڈ حاصل کیا ہے۔
یہ ایوارڈ ہر سال صحافیوں کی طرف سے اسپورٹس کی دنیا کی متاثر کن شخصیت کو دیا جاتا ہے۔
31 سالہ عینی زیدی جو حجاب پہنتی ہیں، برطانیہ میں مڈلینڈز کی پہلی تربیت یافتہ مسلمان کوچ ہیں، جنھوں نے فٹ بال ایسوسی ایشن سے کوچنگ کا سرٹیفیکٹ بیج ٹو حاصل کیا ہے۔
وہ فی الحال فٹ بال کوچنگ کا لائسنس 'یو ای ایف اے بی' مکمل کرنے کی تیاریاں کر رہی ہیں، جس کے ساتھ انھوں نے پروفیشنل کلب کے پیشہ ور کھلاڑیوں کی کوچ بننے کی جانب ایک قدم اور آگے بڑھایا ہے۔
اینی زیدی بلیک ایشین کوچز ایسوسی ایشن کی چیئرمین ہیں۔ وہ برطانیہ کے شہر لیسٹر میں 'لیسٹر سٹی سینٹر فار ایکسیلینس وومن اکیڈمی' میں انڈر 11 کے لیے کوچ ہیں۔
اس کے علاوہ وہ کوئن پارک رینجرز یا کیو پی آر اسپورٹس کلب میں ہفتہ وار انڈر 21 نوجوانوں کی کوچنگ کے فرائض بھی انجام دے رہی ہیں۔
عینی زیدی نورتھ ہیمپٹن یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی ہے اور درھم یونیورسٹی سے اپلائڈ کمیونٹی ڈویلپمنٹ اینڈ یوتھ ورک اسٹڈیز میں ماسٹرز کیا ہے۔
عینی نے لیسٹر مرکری اخبار سے ایک انٹرویو میں بتایا کہ انھوں نے اپنی زندگی فٹ بال کے لیے وقف کر رکھی ہے۔
تاہم ان کا کہنا تھا یہ ان کا ایک بڑا مشکل سفر رہا ہے۔
جب وہ سنڈے لیگ ٹیم کے چار سو مرد منیجرز کے درمیان واحد خاتون منیجر تھیں تو، انھیں منیجرز اور کھلاڑیوں کے صنفی اور نسلی تبصروں کو برداشت کرنا پڑا، جو ان سے ہاتھ ملانا تک پسند نہیں کرتے تھے۔
لیکن، ہر طرح کی بدسلوکی کے باوجود انھوں نے اپنے خوابوں کو ادھورا نہیں چھوڑا اور فٹ بال کوچ بننے کے خواب کو پورا کیا۔
عینی نے بتایا کہ فٹ بال کو ہمیشہ سے مردوں کا کھیل سمجھا جاتا ہے اور اس کھیل میں مجھے ایک استقبالیہ یا منتظم کی طرح دیکھا جاتا تھا لیکن ایک کوچ کی طرح سے قبول نہیں کیا جا رہا تھا۔
عینی نے بتایا کہ انھیں پچپن سے فٹ بال کھیلنے کا جنون کی حد تک شوق تھا وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ گھر کے باہر گارڈن میں فٹ بال کھیلتی اور ہفتے کا دن فٹ بال کے لیے مخصوص ہوتا تھا۔
بقول عینی زیدی ان کی پرورش ایک روایتی پاکستانی گھرانے میں ہوئی ہے۔ جہاں بیٹی کو ماں کے ساتھ کام کاج میں حصہ لینے کا پابند سمجھا جاتا ہے۔
12 سال کی عمر میں ایگزیما جلد کی ایک بیماری کا شکار ہونے کے بعد زیادہ دوست نہیں بنائے اور پھر میری فٹ بال سے دوستی ہو گئی اور یہ جنون پندرہ سال کی عمر میں بھی برقرار تھا۔
ایک برطانوی مسلم خاندان کی لڑکی کا فٹ بال کھیلنا آسان نہیں تھا اسی لیے مجھے اسکول کی فٹ بال ٹیم کے ساتھ کھیلنے کی اجازت بھی نہیں ملی۔
انھوں نے کہا کہ لوگ مجھے کہتے تھے کہ میرے خواب کبھی پورے نہیں ہو سکتے ہیں۔
تبھی بلیک ایشین ایسوسی ایشن کی ایک کانفرنس میں وہ تنظیم کے شریک بانی والس ہرمٹ سے ملیں۔ جنھوں نے اینی کی صلاحیتوں کو پہچان لیا تھا اور اس کے بعد انھوں نے ایک کمیونٹی پراجیکٹ ٹیم کے لیے اٹھارہ ماہ تک بطور کوچ کام کیا اور پھر گزشتہ برس سے وہ لیسٹر سٹی کیمپ میں لڑکیوں کی کوچ بن گئی ہیں۔
تاہم عینی زیدی کہتی ہیں کہ وہ ہمیشہ سے برطانیہ کے سب سے کامیاب پروفیشنل فٹ بال کلب 'ارسنل' میں مردوں کی ٹیم کے لیے کوچ بننے کا خواب دیکھ رہی ہیں اور اگر یہ موقع انھیں مل جاتا ہے تو یہ ان کی زندگی کی سب سے بڑی کامیابی ثابت ہو گی۔