رائل کورٹ آف لندن نے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض اور ان کے بیٹے علی ریاض ملک کا 10 برس کا برطانوی ویزہ منسوخ کرنے کا فیصلہ برقرار رکھا ہے، دونوں افراد اب برطانیہ میں داخل نہیں ہو سکتے۔
ملک ریاض اور ان کے بیٹے علی ریاض کے خلاف رائل کورٹ آف لندن نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ملک ریاض اور ان کے بیٹے کا برطانیہ نہ آنا برطانوی عوام کے مفاد میں ہے۔
تحریری فیصلے کے مطابق خاتون جج نکولا ڈیوس نے لکھا ہے کہ ملک ریاض کو اگرچہ مجرمانہ سزا نہیں دی گئی لیکن اس بات کے قوی امکانات موجود ہیں کہ وہ کرپشن اور مالی/تجارتی بے ضابطگیوں میں ملوث رہے ہیں۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ بدعنوانی کے خلاف عزم کے مطابق ملک ریاض کا برطانیہ سے بے دخل ہونا برطانوی عوام کے لیے بہتر ہو گا۔ ملک ریاض کی مالی بے ضابطگیوں کا تعلق ان کی کمپنی بحریہ ٹاؤن کے ساتھ ہے، یہ کمپنی مکمل طور پر ملک ریاض کی ملکیت میں ہے اور وہ بطور چیئرمین جب کہ ان کے بیٹے علی ریاض سی ای او کے طور پر ان کے ساتھ ہیں۔
فیصلے میں کہا گیا کہ ملک ریاض اور اُن کے اہلِ خانہ کے برطانیہ میں موجود اثاثوں میں مسلسل اضافہ مشکوک ہے اور بظاہر ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں سزا سے بچنے کے لیے ان اثاثوں کو برطانیہ منتقل کیا گیا۔
اس فیصلے کے حوالے سے ردِعمل کے لیے وائس آف امریکہ نے ملک ریاض کے سٹاف آفیسر کرنل خلیل کے ساتھ رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ٹیلی فون کال اور پیغامات کا بھی کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
فیصلے کا پس منظر
برطانوی عدالت کا یہ فیصلہ نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کی تحقیقات اور 2019 میں ملک ریاض کے ساتھ 19 کروڑ پاؤنڈ کے ایک تصفیے کے بعد دیا گیا تھا۔ یہ رقم حکومت پاکستان کو دی جانی تھی تاہم ملک ریاض کی طرف سے کہا گیا تھا کہ انہوں نے برطانیہ میں اپنی ایک جائیداد سپریم کورٹ آف پاکستان میں 460 ارب روپے ادائیگی کے لیے فروخت کر دی ہے۔
اس وقت پاکستان کے مشیر داخلہ شہزاد اکبر نے بھی اس معاملہ کو پاکستان کی بڑی کامیابی قرار دیا تھا کہ 19 کروڑ پاؤنڈ پاکستان کو دیے جا رہے ہیں۔ تاہم یہ رقم ابھی بھی سپریم کورٹ کے پاس موجود ہے جس کو حاصل کرنے کے لیے سندھ حکومت نے عدالت میں درخواست دائر کر رکھی ہے۔
ملک ریاض اور ان کے بیٹے کے پاس برطانیہ کا 10 برس کا ملٹی پل انٹری ویزہ تھا، جو ملک ریاض کے لیے 28 جولائی 2021 اور علی ملک کے لیے 10 مئی 2021 تک کارآمد تھا لیکن 2019 میں ہوم آفس کے فیصلے کے بعد ان ویزوں کو منسوخ کر دیا گیا تھا۔
اس کے بعد ملک ریاض کے وکلا نے ہوم آفس میں ایک پری ایکشن پروٹوکول پٹیشن دائر کی جس میں 31 جنوری 2020 کو ان کے ویزوں کی منسوخی کا فیصلہ برقرار رکھا گیا جس کے بعد ملک ریاض نے امیگریشن اینڈ اسائلم چیمبر میں نظرِثانی کی درخواست کی جس پر 17 نومبر 2020 کو ٹریبونل نے نظرِثانی کی اس درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔
اس فیصلے کے بعد ملک ریاض نے رائل کورٹ آف جسٹس میں اپیل دائر کی تاہم تین ججز پر مشتمل بینچ نے اب اس اپیل کو بھی مسترد کر دیا ہے۔
ملک ریاض کا سپریم کورٹ کے ساتھ معاہدہ کیا تھا؟
سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر بحریہ ٹاؤن نے کراچی میں ضلع ملیر کے علاقے میں قائم ہونے والے بحریہ ٹاؤن کے لیے مبینہ طور پر سستے داموں زمین حاصل کرنے کے عوض 460 ارب روپے دینے کا اعلان کیا تھا۔
سپریم کورٹ میں جاری کیس کی سماعت کے دوران عدالت کو بتایا گیا کہ ہزاروں ایکڑ زمین نہایت سستے داموں بحریہ ٹاؤن کو دے دی گئی ہے اور اس میں ملیر ڈیویلپمنٹ اتھارٹی اور سندھ حکومت کے بعض حکام بھی شامل ہیں، جس پر عدالت نے وہاں تمام تعمیرات پر پابندی عائد کر دی تھی۔
بعد میں اس حوالے سے کیس کی سماعت کے دوران بحریہ ٹاؤن نے 460 ارب روپے ادا کرنے کی حامی بھری جس کے بعد زمینوں پر قبضے کا کیس ختم کر دیا گیا۔
اسی رقم کے معاملے کے دوران پاکستان کے اثاثہ جات ریکوری یونٹ کے سربراہ اور وزیرِ مملکت برائے داخلہ شہزاد اکبر نے کہا تھا کہ برطانیہ سے آنے والے 190 ملین پاؤنڈ کی رقم سپریم کورٹ آف پاکستان میں آئے گی۔ یہ رقم برطانوی ادارے نے لندن کی مختلف پراپرٹیز کی مد میں ریکور کی تھی اور بحریہ ٹاؤن نے یہ رقم دینے کا کہا تھا۔ لیکن ملک ریاض کا کہنا تھا کہ یہ ایک سول معاملہ تھا جس میں کوئی جرم رونما نہیں ہوا۔