رسائی کے لنکس

برطانیہ میں کرونا وائرس 1300 سے زیادہ ذرائع سے پہنچا


کرونا وائرس کے مریضوں کے خون کا تجزیہ کیا جا رہا ہے
کرونا وائرس کے مریضوں کے خون کا تجزیہ کیا جا رہا ہے

برطانیہ میں ماہرین نے ایک مفصل سائنسی تجزیے کے بعد بتایا ہے کہ یہ کہنا غلط ہے کہ کوئی ایک شخص ملک میں کرونا وائرس لانے کا سبب بنا، بلکہ وائرس کے ڈی این اے کے تجزیے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں پھیلنے والے وائرس کے نقشے 1356 اقسام کے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق یہ کہنا درست نہیں ہے کہ وائرس صرف کسی ایک شخص کے ساتھ برطانیہ میں داخل ہوا تھا۔

عمومی طور پر یہ تصور کیا جاتا ہے کہ وائرس پہلے پہل چین کے شہر ووہان میں پیدا ہوا اور پھر وہاں سے دنیا بھر میں پھیل گیا۔

کوویڈ 19 سے متعلق جنومیکس یوکے کنسورشیم(Cog-UK) کے تحت کی جانے والی ایک تحقیق میں اس خیال کو باطل قرار دیا گیا ہے کہ برطانیہ میں عالمی وبا کا سبب کوئی واحد شخص تھا۔ تحقیق کے نتائج سے ظاہر ہوا ہے کہ چین میں پھیلنے والی وبا کا اثر برطانیہ میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ بلکہ، برطانیہ میں جو کیسز سامنے آئے، ان کے زیادہ تر نمونے یورپی ملکوں سے ملتے ہیں۔

اس تحقیقی مطالعے کے لیے برطانیہ میں 20 ہزار سے زیادہ ان لوگوں کے خون کے نمونے حاصل کیے گئے تھے جو کرونا وائرس میں مبتلا ہوئے تھے۔ وائرس کے ڈی این اے کے نقشے کا موازنہ مختلف ملکوں میں پھیلنے والے وائرس کے نمونوں سے کیا گیا، جس سے پتا چلا کہ برطانیہ میں کرونا کے 1356 نمونوں نے لوگوں کو اس مرض میں مبتلا کیا۔ ان میں سے اکثر کا ماخذ یورپی ملک تھے۔

کرونا وائرس کے ماخذ پر تحقیق کرنے والے ادارے سے منسلک پروفیسر نک لومن، جن کا تعلق برمنگھم یونیورسٹی سے ہے، بتایا کہ اس تحقیق کا دلچسپ اور حیران کن نتیجہ یہ ہے کہ برطانیہ میں کرونا کا ماخذ ایک نہیں بلکہ اس کی چھاپ کے نمونے سینکڑوں کی تعداد میں ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ برطانیہ میں پھیلنے والے وائرس پر چین کی براہ راست چھاپ صفر اعشاریہ ایک فی صد سے بھی کم ہے۔ اس کی بجائے یہ نمونے زیادہ تر ان سیاحوں کے نمونوں سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے فروری کے آخر میں برطانیہ کا سفر کیا تھا یا جو مارچ کے پہلے پندھرواڑے میں سپین سے آئے تھے یا وہ مارچ کے آخر میں فرانس سے آنے والے لوگ تھے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر اولیور پی بس کہتے ہیں کہ ہمارے لیے سب سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ صرف چند ہفتوں کے اندر کتنی تیزی سے وائرس نے اپنی شناخت تبدیل کی۔

مطالعاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کرونا وائرس فیملی کی ان مختلف اقسام میں سے 80 فی صد 28 فروری سے 29 مارچ کے دوران برطانیہ میں داخل ہوئی۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب برطانوی حکام اس گو مگو میں تھے کہ آیا لاک ڈاؤن کیا جائے یا نہیں۔ وائرس کا اولین سراغ فروری کے ابتدائی دنوں میں ملتا ہے۔

مطالعاتی تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ایک عمومی تصور یہ ہے کہ وائرس گیارہ مارچ کو لیور پول اور میڈرڈ کی ٹیموں کے درمیان کھیلے جانے والے فٹ بال میچ کی وجہ سے پھیلا جسے دیکھنے کے لیے تقریباً تین ہزار شائقین سپین سے آئے تھے۔ مگر ان دنوں کا فضائی سفر کا ڈیٹا یہ ظاہر کرتا ہے کہ مارچ کے وسط تک لگ بھگ 20 ہزار افراد ہر روز سپین سے برطانیہ آئے تھے۔ اس لحاظ سے میچ دیکھنے والے تین ہزار شائقین کی تعداد محض آٹے میں نمک کے مساوی ہے۔

پروفیسر لومن کہتے ہیں کہ یہ وائرس ایک فرد سے دوسرے، دوسرے سے تیسرے، پھر چوتھے اور اسی طرح آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اسے روکنے کا واحد طریقہ اس کے پھیلاؤ کی ڈوری کو کاٹنا ہے۔ اگر آپ سماجی فاصلے کی پابندی کو یقینی بنا لیں تو کرونا وائرس کا خاتمہ شروع ہو جائے گا۔

XS
SM
MD
LG