رسائی کے لنکس

تارکینِ وطن کی آمد روکنے کے لیے برطانیہ کا سخت ویزہ پالیسی کا منصوبہ


برطانیہ نے تارکینِ وطن کی نقل مکانی روکنے لیے سخت ویزہ پالیسی کے نفاذ کا اعلان کر دیا ہے جس کے بعد حکومت کو امید ہے کہ قانونی طریقے سے برطانیہ آنے والوں کی تعداد میں کمی واقع ہوگی۔

گزشتہ ماہ جاری ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق 2022 میں ریکارڈ سات لاکھ 75 ہزار تارکینِ وطن برطانیہ آئے اور اس کے بعد بھی بڑی تعداد میں ان کا برطانیہ آمد کا سلسلہ جاری ہے۔

یورپی ممالک کے مقابلے میں بھارت، چین اور نائیجیریا سے برطانیہ آنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔

تارکینِ وطن کی تعداد میں اضافے سے وزیرِ اعظم رشی سونک کی حکومت پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔

برطانوی حکومت نے ایسے موقع پر تارکینِ وطن کی آمد کو محدود کرنے سے متعلق پالیسی مرتب کی ہے جب آئندہ برس برطانیہ میں عام انتخابات ہونے والے ہیں۔

برطانیہ کے وزیرِ داخلہ جیمز کلیورلی کہتے ہیں کہ نئے حکومتی اقدامات کے بعد تارکینِ وطن کی سالانہ تعداد تین لاکھ تک آ سکتی ہے۔

جیمز کلیورلی نے تارکینِ وطن کی آمد کو روکنے سے متعلق پیر کو ایوان میں تجاویز پیش کیں۔ ان تجاویز میں برطانیہ آنے والے ورکرز کے اہلِ خانہ کو ساتھ لانے سے روکنا شامل ہے۔

تارکینِ وطن کی نقل مکانی روکنے کے لیے دیگر اقدامات میں ان کے اہلِ خانہ کی ویزہ فیس میں اضافہ اور صحت کی سہولتوں کے لیے 66 فی صد تک ادائیگی شامل ہے جو سالانہ لگ بھگ ایک ہزار 35 پونڈ بنتی ہے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ تارکینِ وطن ملازمین پر یہ دہرا چارج ہے کیوں کہ وہ نیشنل انشورنس کی مدد میں بھی ادائیگی کرتے ہیں۔

برطانیہ کے وزیرِ داخلہ جیمز کلیورلی کہتے ہیں کہ نئے حکومتی اقدامات کے لیے تارکینِ وطن کی سالانہ تعداد تین لاکھ ہو سکتی ہے۔
برطانیہ کے وزیرِ داخلہ جیمز کلیورلی کہتے ہیں کہ نئے حکومتی اقدامات کے لیے تارکینِ وطن کی سالانہ تعداد تین لاکھ ہو سکتی ہے۔

کلیورلی نے قانون سازوں کو بتایا کہ حکومت تارکینِ وطن کی تنخواہوں سے متعلق نئی فہرست متعارف کرا رہی ہے جس کی مدد سے ملک میں غیر ملکیوں کی رہائش کم ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ حکومت غیر ملکی ہنر مند ورکرز کو کم سے کم اجرت 38 ہزار 700 پونڈ کمانا ہو گی۔ جو اس سے قبل 26 ہزار 200 کما رہے تھے۔ البتہ صحت اور سماجی بہبود کے شعبوں میں کام کرنے والے اس سے مستثنیٰ ہوں گے۔

برطانوی وزیرِ داخلہ نے کہا کہ تارکینِ وطن کی روک تھام سے متعلق منصوبے کا اطلاق آئندہ برس کے اوائل سے ہو گا۔

برطانوی وزیرِ اعظم رشی سونک کے آفس نے ایوان میں پیش کردہ تجاویز کو قانونی طور پر برطانیہ آنے والوں سے متعلق بڑی پابندی قرار دیا ہے۔ لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومتی اقدام سے صحت کا شعبہ شدید متاثر ہو گا، جو پہلے ہی طبی عملے کی کمی کا شکار ہے۔

واضح رہے کہ کنزرویٹو پارٹی نے سابق وزیرِ اعظم بورس جانسن کی قیادت میں 2019 کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی اور تارکینِ وطن کی تعداد میں کمی کا وعدہ کنزرویٹو پارٹی کے انتخابی نعروں میں شامل تھا۔

تاہم جنوری 2020 میں یورپی یونین سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد بھی برطانیہ میں تارکینِ وطن کی آمد میں اضافہ ہی ہوا ہے۔

اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے 'رائٹرز' اور' اے ایف پی' سے لی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG