رسائی کے لنکس

زوخار اپنے کیے پر نادم، راہبہ کا بیان


عدالتی اسکیچ
عدالتی اسکیچ

بوسٹن میراتھون ریس مقدمے کی سماعت کے دوران، راہبہ ہیلن پریجان نے پیر کے روز جیوری کو بتایا کہ ’اُس نے بالکل کھری بات کی۔ وہ کہہ رہا تھا کہ کسی کو ایسی اذیت نہیں دی جانی چاہیئے۔۔۔ مجھے پورا یقین ہے کہ وہ یہ بات دل سے کہہ رہا تھا اور وہ حقیقتاً اپنے کیے پر نادم ہے‘

بوسٹن میراتھون بم حملہ آور، زوخار سارنیف نے سزائے موت کی مخالف ایک رومن کیتھولک راہبہ کو بتایا تھا کہ وہ نہیں چاہتے کہ سنہ 2013 کے مہلک حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی طرح کوئی اور ایسی ہی اذیت سے گزرے۔ راہبہ نے یہ بات پیر کو جیوری کے سامنے دی گئی اپنی شہادت میں کہی۔

زوخار سارنیف کا مقدمہ اب اپنے آخری مراحل میں ہے۔ وفاقی جیوری جس نے گذشتہ ماہ 21 برس کے حملہ آور کو تین افراد کی ہلاکت اور 264 کو زخمی کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا، وہ بہت جلد اس بحث پر فیصلہ دینے والا ہے آیا مجرم کو موت یا عمر قید کی سزا دی جانی چاہیئے۔

راہبہ، ہیلن پریجان نے پیر کے روز جیوری کو بتایا کہ ’اُس نے بالکل کھری بات کی۔ وہ کہہ رہے تھے کہ کسی کو ایسی اذیت نہیں دی جانی چاہیئے‘۔ بقول اُن کے،’مجھے پورا یقین ہے کہ وہ یہ بات دل سے کہہ رہا تھا اور وہ حقیقتاً اپنے کیے پر نادم ہے‘۔

پندرہ اپریل، 2013ء کو دوڑ کی فنش لائن کے قریب جہاں بیشمار لوگ جمع تھے، دیسی ساختہ پریشر کوکر بم پھٹے، جس سے تقریبا 17 افراد کے اعضاٴ تن سے جدا ہوگئے۔

مقدمے میں قصور اور سزا کے تعین کے مرحلوں کے دوران جیوری نے بم حملوں میں بچ جانے والوں، اُن کے اہل خانہ اور احباب کو سنا، جن کےپیارے دھماکوں میں ہلاک، زخمی پا اپاہج ہوئے۔

پریجان نے بتایا کہ اِسی سال اُن کی زوخار سانیف سے پانچ بار ملاقات ہوچکی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ مجھے وہ 1993ء میں ’ڈیڈ مین واکنگ‘ نامی کتاب اور 1995ء میں اِسی عنوان پر بننے والی فلم سے متاثر لگا۔

پریجان کی شہادت کے بعد، سماعت میں وقفہ کیا گیا۔ ابھی تک زوخار نے اپنا مؤقف نہیں بتایا۔

استغاثہ، جس نے زوخار سارنیف کے لیے سزائے موت کی استدعا کر رکھی ہے، کا کہنا تھا کہ چیچن نسل کا یہ فرد القاعدہ کے شدت پسند نظریے کا گرویدہ ہے، جس نے یہ حملہ امریکہ کو سزا دینے کے لیے کیا، جو بقول اُس کے، مسلمان ملکوں میں فوجی کارروائیاں کر رہا ہے۔

زوخار کے وکلا کا کہنا ہے کہ اُنھوں نے اس حملے میں حصہ لیا، لیکن اس عمل میں وہ اپنے 26 برس کے بھائی کے زیر اثر تھا۔

تمرلان کو 19 اپریل 2013ء کو اس وقت ہلاک کیا گیا جب پولیس اور سارنیف برادران کے درمیان گولیوں کا تبادلہ ہوا اور پولیس سے جان بچا کر بھاگنے کی کوشش کے دوران زوخار، جس چوری کی گاڑی میں سوار تھا، وہ تمرلان کے اوپر سے گزر گئی ۔ اُس سے چند ہی گھنٹے قبل، سارنیف برادران نے بوسٹن سے بچ نکلنے کی کوشش کے دوران یونیورسٹی پولیس اہل کار کو گولی مار کر ہلاک کیا تھا۔

XS
SM
MD
LG