امريکہ پر 2001ء کے دہشتگرد حملوں کےبعد سے پاکستان کے قبائلي علاقے دنيا بھر کي توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہيں ۔ قبائلي علاقوں اور افغانستان ميں انتہاپسندي کے خلاف جاري جنگ اور اس جنگ کے ديگر پہلوؤں پریوں تو کئي کتابيں لکھي جا چکي ہيں لیکن ان میں سے اکثرکتابوں کے مصنفين غير ملکي ہيں يا پھر غير مقامي ہيں۔
اپنے علاقائي مسائل پر کوئي کتاب تحرير نہ کرنے کي وجہ سے مقامي مصنفين پر عرصہ دراز سے نکتہ چيني کي جا رہي ہے۔ اس کمي کو پورا کرنے کے لئے خيبرپختونخواہ کے شہر کوہاٹ سے تعلق رکھنے والي ايک کالم نگار اور اوسلو يونيورسٹي کی ريسرچ فيلو ڈاکٹر فرحت تاج نے ’ طالبان اور اينٹي طالبان‘ کے نام سے ايک کتا ب تحرير کي ہے۔
وائس آف امريکہ کي اردو سروس کے ساتھ ايک انٹرويو ميں فرحت تاج کا کہنا تھا کہ انکي اس کتاب کا ايک مقصد ایسی تحقيق اور تحريروں کو چيلنج کرنا ہے جو قبائلي علاقوں کي حقيقي صورتحال کے بالکل برعکس ہيں اور دوسرا مقصد دنيا کے سامنے دہشتگردي اور اسکے خلاف جنگ کي اصل روح کو واضح کرنا ہے۔
فرحت تاج کے مطابق انہوں نے اپنی کتاب قبائلي علاقوں اور خيبرپختونخواہ کے شورش زدہ حصوں ميں دوہزار لوگوں سے ملاقاتوں اور ان کے انٹرویوز کو سامنے رکھ کر لکھی ہے۔ کتاب ميں قبائلي علاقوں ميں ڈرون حملوں ، قبائلي لشکروں اور دہشتگرد حملوں کا نشانہ بننے والے راہنماؤں کے بارے ميں الگ الگ باب تحرير کئے ہيں۔
انگريزي زبان ميں لکھي گئي اس کتاب کی مصنفہ ڈاکٹر فرحت تاج کا کہناہے کہ دہشتگردي کے حوالے سے حقائق کو تھوڑ مروڑ کر بيان کرنے کا ذمہ دار ، پاکستاني ميڈيا ہے۔ ان کے الفاظ ميں مقامي ميڈيا حکومت اور حساس اداروں کا حامي ہے۔اور وہ قبائلي علاقوں کے متعلق پروپيگنڈا کر رہا ہے۔
کتاب ميں انھوں نے پشتونوں کي روايت ’ پختون ولي‘ کو دہشتگردي سے جوڑنے پر ، غير ملکي اور ملکي مصنفوں کو کڑي تنقيد کا نشانہ بنايا ہے۔ وائس آف امريکہ ساتھ اپنے انٹرویو کے دوران انہوں نے کہا کہ قبائلي علاقوں ميں’پختون ولي‘ کے تحت القاعدہ کے لوگوں کو پناہ نہیں دي گئي ہے اور نہ ہي ان سے شادیاں کرکے رشتے داریاں قائم کی گئیں۔
فرحت تاج کہتی ہیں کہ پاکستان کے حساس اداروں نے دہشت گردوں کو پناہ دي ۔ دہشتگردي ميں پاکستان کے حساس اداروں کے ملوث ہونے کی ایک دلیل کے طورپر انہوں نے کہا کہ اسامہ بن لادن ، خالد شيخ محمد اور ابو زبيدہ قبائلي علاقوں سے نہيں بلکہ ملک کے بڑے شہروں سے پکڑے گئے تھے۔
کتاب کے بعض ابواب ميں ، مصنفہ نے يہ دعوي بھي کيا ہے کہ ہلاک ہونے والوں ميں عا م شہريوں کی نسبت اکثریت دہشت گردوں کی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ڈرون طیارے انتہا پسندي کے خلاف جنگ ميں ايک اہم اور مئوثر حکمت عملي ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب ميں اسے ’ ابرہہ‘کے لشکر پر حملہ کرنے والے ’ ابابيل‘کے نام سے منسوب کیا ہے۔
انہوں نے اپنی کتاب میں طالبان کے خلاف قائم کیے جانے والے لشکروں پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ فرحت تاج کا کہناہے کہ قبائلي عوام بنيادي طور پر شدت پسندوں کے مخالف ہيں اور مقامی آبادی نے ان کے خلاف لشکرحکومت کے کہنے پر نہيں بلکہ خود اپني مرضي سے بنائے ہيں۔
وہ لکھتي ہيں کہ قبائلي حکومت ، حساس اداروں اور دہشتگردوں کے درميان پھنسے ہوئے ہيں۔انہوں نے اس تاثر کو، کہ قبائلي علاقوں ميں حکومت کي عملداري نہ ہونے کے برابر ہے ، رد کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر ايسا ہے تو ان علاقوں ميں روس کے خلاف کامياب جنگ کيسے لڑي گئي۔
فرحت تاج کا کہناہے کہ قبائلي علاقوں کے لوگوں کی اکثریت ڈرون حملوں کی حامی ہے اور يہ کہ ان حملوں کےخلاف زیادہ تر مظاہرے قبائلي علاقوں اور خيبر پختونخواہ میں نہيں بلکہ ملک کے ديگر صوبوں میں ہوتے ہیں جہاں ان حملوں کے خلاف جذبات پائے جاتے ہیں۔
نائین الیون کے پس منظر میں شائع ہونے والی 219 صفحات پر مشتمل اس کتاب ميں جہاں شدت پسندي کي جنگ کو سمجھنے کے لئے بہت کچھ ہے، وہاں مصنفہ کے جارحانہ موقف سے اختلاف کي گنجائش بھي موجود ہے۔ پاکستان کي حکومت اور حساس ادارے بعض حلقوں کی جانب سے خود پر عائد کیے جانے والے دہشت گردي کے الزامات کو اکثر مسترد کردیتے ہیں۔