رسائی کے لنکس

ایٹمی حملے میں محفوظ رہنے والے بونسائی درخت کی 400 ویں سالگرہ


ہیروشما پر ایٹمی حملے میں بچ نکلنے والا چار سو سالہ بونسائی درخت آج بھی واشنگٹن میں زندہ ہے
ہیروشما پر ایٹمی حملے میں بچ نکلنے والا چار سو سالہ بونسائی درخت آج بھی واشنگٹن میں زندہ ہے

65 سال قبل چھ اگست 1945 میں دوسری عالمی جنگ کے دوران ہیروشما پر گرائے جانے والے پہلے جوہری بم کے نتیجے میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ افرادہلاک ہو گئے تھے اور بڑے پیمانے پر املاک کو نقصان پہنچا تھا۔ تاہم اس بڑ ی تباہی میں جو زندہ بچے نکل تھے ان میں بونسائی بھی شامل تھا ، یعنی گملے میں لگا ہوا چھوٹی قامت کا ایک درخت۔ درختوں کو چھوٹا رکھنا جاپان کا ایک خاص آرٹ ہے۔بعد ازاں اس بونسائی کو ایک قومی تحفے کے طور پر امریکہ بھیجا دیاگیا تھا ۔ جہاں آج وہ واشنگٹن کے ایک عجائب گھر میں نہ صرف محفوظ ہے بلکہ زندہ بھی ہے اور اپنی زندگی کی 400 ویں سالگرہ منارہاہے۔

اگر یہ درخت بول سکتا ، تو اس کے پاس سنانے کو بہت سی کہانیاں ہوتیں ۔اپنی تقریباً چار سو سال کی زندگی میں وہ کئی جنگیں بھی دیکھ چکا ہے ۔

نیشنل بونسانی میوزیم کے کیوریٹر جیک سسٹک کہتے ہیں کہ یہ درخت 1976ءمیں امریکہ کی 200 ویں سالگرہ کے موقع پر جاپان سے 53 بونسائی درختوں کے ایک تحفے کے طور پر امریکہ پہنچا تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک جاپانی وائٹ پائن درخت ہے جو اصل تحفے میں شامل تھا ۔ تحفے میں شامل ہونے سے قبل جاپان میں یامکی نامی ایک خاندان ، کے پاس چھ نسلوں سے موجود تھا۔ اسے 1625 ءمیں ایک بونسائی کے طور پر اگایا گیا تھا۔

جیک کہتے ہیں کہ یامکی خاندان کے پاس بونسائی درخت کی ایک نرسری تھی اور یہ ان کا ایک شناختی درخت تھا۔ اس خاندان کی چھ نسلوں نے اس درخت کی دیکھ بھال کی اور اب تک امریکہ کے چار کیوریٹرز اس کے نگران رہ چکے ہیں۔

ان کا کہناتھا کہ مسٹر یامکی نے، جنہوں یہ درخت تحفے میں دیا تھا، اس کے چار یا پانچ سال بعد امریکہ آئے تھے۔ یہ ایک دلچسپ کہانی ہے کیوں کہ جب انہوں نے یہاں اسے دیکھا تو انہوں نے جذباتی انداز میں رونا شروع کر دیا ۔ یہ منظر دیکھ کر اس وقت کے کیوریٹر کچھ پریشان ہوئے اور انہوں نے ایک مترجم سے کہا کہ وہ مسٹر یامکی سے پوچھ کر بتائے کہ کیا سب کچھ ٹھیک ہے ۔ مترجم نے ان سے پوچھ کر بتایا کہ وہ بالکل ٹھیک ہیں اور کیوں کہ ان کا درخت یہاں ٹھیک ٹھاک ہے ۔ان کی آنکھوں سے بہنے والے آنسو خوشی کے آنسو ہیں۔

جیک کہتے ہیں کہ ان درختوں کی دیکھ بھال ان کے ایک اعزاز اور خوشی کی بات ہے ۔۔ لیکن یہ ایک بہت ذمہ داری کا کام بھی ہے ۔

اس امریکی عجائب گھرمیں بونسائی درختوں کے شمالی امریکہ کے سب سے بڑے ذخیرے کا آغازجاپان کے عطیے سے ہوا تھا ۔ آجکل یہاں تقریباً 300بونسائی درخت موجود ہیں ، جنہیں تین الگ الگ احاطوں میں رکھا گیا ہے ۔ ایک میں جاپان ، دوسرے میں چین اور تیسرے میں امریکہ کے بونسائی درخت رکھے گئے ہیں ۔

بونسائی کا لفظی مطلب ہے گملے میں لگا ہوا درخت۔ لیکن آپ اس ذخیرے کو غور سے دیکھیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ یہ صرف کسی گملے میں لگا درخت ہی نہیں ہے بلکہ یہ آرٹ کا ایک نمونہ بھی ہے ۔ زندہ آرٹ کا ایک نمونہ۔

اس ذخیرے میں موجود بونسائی کا ایک سب سے مشہور ذخیرہ 57 سالہ جونیپر فارسٹ ہے جسے جان نیکا نے تیار کیا تھا ۔ انہیں شمالی امیریکہ کے بونسائی درختوں کا بانی سمجھا جاتا ہے ۔ا نہوں نے اپنے ہر پوتا پوتی اور نواسہ نواسی کے لیے ایک ایک درخت بویا تھا۔

جیک کہتے ہیں کہ اس درخت پر کام کبھی ختم نہیں ہوتا کیوں کہ یہ ایک زندہ آرٹ ہے ۔یہ باغبانی کا ایک مخصوص طریقہ ہے جو ان درختوں کو بونا رکھتا ہے اور انہیں بڑا نہیں ہونے دیتا ۔

اس میوزیم میں درختوں کو اپنی اصل حالت میں رکھنے کے لیےایک چھوٹا سا عملہ اور 15 رضاکار موجود ہیں، اس کام میں بہت زیادہ دیکھ بھال اورمستقل محنت درکار ہوتی ہے ۔ یہ درخت مسلسل بڑھتے رہتے ہیں ، اس لیے انہیں سال میں ایک یا دو بار چھانٹنا پڑتا ہے اور ہر چند سال بعد کسی دوسرے گملے میں منتقل کرنا پڑتا ہے

بونسائی درختوں کا یہ ذخیرہ انمول ہے ۔ ہر درخت منفرد ہے اور ان کی اوسط عمر تقریباً ایک سو سال ہے ، جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی حفاظت کئی نسلوں نے کی ہے ۔ بونسائی درختوں پر بہار آتی ہے ، یہ پھل دیتے ہیں اور موسم خزاں میں ان کارنگ تبدیل ہو جاتا ہے ۔ جیک کہتے ہیں کہ وہ اور ان کا گھرانہ اپنے گھر میں لگے 30 بونسائی درختوں میں سے ایک کے سیب کھاتا ہے ۔

وہ کہتے ہیں کہ ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اگرچہ یہ درخت سائز میں بہت چھوٹے ہوتے ہیں لیکن ان کے پھل اور پھولوں کا سائز چھوٹا نہیں ہوتا ۔

بونسائی آرٹ ایک ہزار سال سے بھی زیادہ عرصہ قبل چین میں اپنے آغاز کے بعد سے کئی صدیوں تک صرف ممتاز گھرانوں کا ایک مشغلہ رہا ۔ امریکہ میں اسے زیادہ تر مقبولیت نیشنل بونسائی فاؤنڈیشن کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے ۔ جان کلوڈسن فاؤنڈیشن کی ڈائریکٹر ہیں ان کا کہنا ہے کہ بونسائی درخت صرف وہی کچھ نہیں ہیں جیسا کہ ہمیں دکھائی دیتے ہیں ۔ ان میں اور بھی بہت سی خوبیا ں ہیں ۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے آپ آرٹ کے کسی بھی نمونے ،آرٹ کے کسی بھی شاہکار کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں ا ور آپ کے اور اس نمونے کے درمیان ایک گفتگو شروع ہونے لگتی ہے اور یہ گفتگو ایک روحانی شکل اختیار کرنے لگتی ہے ۔

جیک کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ اگر آپ بونسائی آرٹ شروع کر دیں تو آپ کو اپنے اندر ایک تبدیلی کا احساس پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے ۔ یہ آپ کی شخصیت میں نکھار پیدا کرتاہے ۔ یہ آپ کو تحمل اور احترام سکھاتا ہے ۔ اس نے مجھے یقینی طور پر ایک بہتر انسان بنا دیا ہے ۔

XS
SM
MD
LG