رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر سے متعلق فلم 'شکارا' کی ریلیز روکنے کے لیے درخواست


مذکورہ فلم میں اسی کی دہائی کے آخر میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں علیحدگی پسندوں کی کارروائیوں میں اضافے اور اس تناظر میں کشمیری برہمن پنڈتوں کے انخلا کو موضوع بنایا گیا ہے۔
مذکورہ فلم میں اسی کی دہائی کے آخر میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں علیحدگی پسندوں کی کارروائیوں میں اضافے اور اس تناظر میں کشمیری برہمن پنڈتوں کے انخلا کو موضوع بنایا گیا ہے۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی ہائی کورٹ نے بُدھ کو بالی وڈ کی نئی آںے والی فلم 'شکارا' کے خلاف دائر درخواست سماعت کے لیے منظور کر لی۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ فلم ساز اور ہدایت کار وِدھو ونود چوپڑا کی اس فلم میں کشمیر کی تاریخ کو مسخ اور کشمیری مسلمانوں کی تذلیل کر کے اشتعال پھیلانے کی کوشش کی گئی ہے۔

مذکورہ فلم میں اسی کی دہائی کے آخر میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں علیحدگی پسندوں کی کارروائیوں میں اضافے اور اس تناظر میں کشمیری برہمن پنڈتوں کے انخلا کو موضوع بنایا گیا ہے۔

فلم ونود چوپڑا فلمز اور فوکس سٹار اسٹوڈیوز کی مشترکہ پیش کش ہے۔ جنہوں نے 2000 میں کشمیر میں جاری شورش کو موضوع بنا کر 'مشن کشمیر' بنائی تھی اس فلم میں ہریتک روشن اور پریٹی زنٹا نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔

وادئ کشمیر میں 'شکارا' کی فلم بندی 2018 میں شروع کی گئی تھی۔ فلم کو اے آر رحمان اور قطبِ کرپا نے دھنوں سے سجایا ہے اور یہ جمعہ سات فروری کو بھارت بھر میں ریلیز ہونے والی ہے۔ 'شکارا' سرینگر میں واقع شہرہ آفاق جھیلوں ڈل اور نگین میں تیرنے والی خوبصورت روایتی کشتیوں کو کہتے ہیں۔

'شکارا' پر پابندی کا مطالبہ کیوں؟

جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں دائر کی گئی رٹ پٹیشن میں 'شکارا' کو عام نمائش کے لیے پیش کرنے سے روکنے کی استدعا کی گئی ہے۔

یہ درخواست صحافی ماجد حیدری اور سیاسی کارکنوں افتخار مسگر اور عرفان حافظ لون نے دائر کی ہے۔ درخواست گزاروں کا موقف ہے کہ فلم میں واقعات کو توڑ مروڑ کر اور غلط پیرائے میں پیش کیا گیا ہے۔ اور یہ تین دہائی قبل پیش آںے والے واقعات کی عکاسی نہیں کرتی۔ عدالت چھ فروری کو اس کیس کی سماعت کرے گی۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ 1989 میں علیحدگی کی تحریک کے دوران کشمیری مسلمانوں نے ہندوؤں کو وادی نہ چھوڑنے کا مشورہ دیا تھا۔ بلکہ مسلمانوں نے کہا تھا کہ وادی کشمیر میں ہندو اور مسلمان مل کر رہیں گے۔ لیکن فلم میں دکھایا گیا ہے کہ مسلمان وادی سے کشمیری پنڈتوں کے انخلا کے ذمہ دار تھے۔

درخواست گزاروں کا موقف ہے کہ فلم میں بندوق اُٹھانے والے کشمیری نوجوانوں اور عام مسلمان کشمیریوں کو ایک ہی نظر سے دیکھا گیا ہے۔

لیکن ہدایت کار وِدھو ونود چوپڑا کا کہنا ہے کہ 'شکارا' سے جڑے عملے کا نصف حصہ کشمیری مسلمانوں پر مشتمل تھا۔ لہذٰا وہ فلم کے موضوع سے بخوبی واقف تھے۔

فلم کے ٹریلر میں کشمیر میں جاری شورش اور تشدد پر مبنی واقعات کی کئی جھلکیاں دکھائی گئی ہیں۔ ان میں کشمیری پنڈتوں کے گھروں کو نذر آتش ہوتے دکھایا گیا ہے۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG