لیبیا کے ساحل کے نزدیک بحیرہ روم میں تارکینِ وطن سے لدی ایک کشتی الٹنے سے سیکڑوں افراد کے ہلاک ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
کشتی پر لگ بھگ 700 افراد سوار تھے جو بحیرۂ روم کے راستے مبینہ طور پر غیر قانونی طریقے سے یورپ جانے کی کوشش کر رہے تھے۔
حادثہ اٹلی کے جنوبی جزیرے لیمپیڈوسا سے تقریباً 193 کلومیٹر جنوب میں کھلے سمندر میں اتوار کو پیش آیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے پناہ گزینوں سے متعلق ادارے 'یو این ایچ سی آر' نے قیاس ظاہر کیا ہے کہ تارکینِ وطن سے لدی 20 میٹر طویل کشتی اس وقت ڈوبی جب اس پر سوار تمام افراد نے ایک تجارتی جہاز کو اپنی طرف آتے دیکھا اور وہ کشتی کی ایک ہی حصے کی طرف جمع ہوگئے۔
'یو این ایچ سی آر' کے مطابق مسافروں کا گمان تھا کہ تجارتی جہاز انہیں بچانے کے لیے آرہا ہے۔ مسافروں کے ایک طرف جمع ہوجانے کے باعث کشتی توازن کھو بیٹھی اور الٹ گئی۔
یورپی حکام نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ پانی کا بہاؤ کئی لاشوں کو لییبا کے ساحل کی طرف لے گیا ہے۔ کشتی جس مقام پر ڈوبی ہے وہ لیبیا کے ساحل سے محض 70 میل کے فاصلے پر ہے۔
یورپی حکام کا کہنا ہے کہ دن بھر جاری رہنے والی امدادی سرگرمیوں کے باوجود اب تک صرف 28 افراد کو زندہ بچایا جاسکا ہے جب کہ سمندر سے صرف 24 لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔ حادثے میں لاپتا لگ بھگ 650 مسافروں کے بارے میں خدشہ ہے کہ وہ سمندر کی بے رحم موجوں کی نذر ہوگئے ہیں۔
کشتی پر سوار افراد کی تلاش کے لیے اٹلی اور دیگر ملکوں کے بحری جہاز اور ہیلی کاپٹر رات ڈھلنے کے باوجود امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔
اگر کشتی پر سوار تمام افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہوگئی تو رواں سال سمندر کے راستے غیر قانونی طریقے سے یورپ پہنچنے کی کوشش کے دوران ہلاک ہونے والے افریقی اور ایشیائی تارکینِ وطن کی تعداد 1500 تک جاپہنچے گی۔
اتوار کو ہونےو الے حادثے میں سیکڑوں تارکینِ وطن کی ممکنہ ہلاکت نے یورپ کے سیاسی اور سماجی حلقوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور کئی یورپی رہنماؤں نے اس مسئلے سے نبٹنے کے لیے فوری حکمتِ عملی وضع کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
حادثے کے بعد یورپی یونین کے خارجہ امور کی سربراہ فیڈیریکا موغیرینی نے پیر کو لگسمبرگ میں ہونے والے یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے ایجنڈے میں تارکینِ وطن کے مسئلے کو شامل کرنے کا اعلان کیا ہے۔
یورپین کونسل کے صدر ڈونالڈ ٹسک نے کہا ہے کہ وہ تارکینِ وطن کی یورپ آمد کے مسئلے پر غور کے لیے یورپی یونین کا سربراہی اجلاس طلب کرنے پر غور کر رہے ہیں جس کا مطالبہ اس سے قبل اٹلی کے وزیرِاعظم میٹیو رینزی بھی کرچکے ہیں۔
فرانس کے صدر فرانسس اولاں اور کئی دیگر یورپی ملکوں کے وزرا اور اعلیٰ حکام نے بھی تارکینِ وطن کی آمد کے مسئلے سے نبٹنے کے لیے مشترکہ حکمتِ عملی کو مزید موثر بنانے پر زور دیا ہے۔
افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے جنگ سے متاثرہ علاقوں سے ہزاروں کی تعداد میں تارکین وطن یورپ پہنچنے کی امید میں بحیرہ روم کو پار کرنے کا خطرناک سفر اختیار کرتے ہیں جن کی پہلی منزل اٹلی ہوتا ہے۔
رواں سال کے ابتدائی ساڑھے تین ماہ میں اب تک 20 ہزار سے زائد غیر قانونی تارکینِ وطن اٹلی کے ساحل تک پہنچنے میں کامیاب رہے ہیں۔
گزشتہ ہفتے بھی اسی نوعیت کا ایک حادثہ پیش آیا تھا جب لیبیا سے غیر قانونی تارکینِ وطن کو یورپ لانے والی ایک کشتی اٹلی کے نزدیک الٹ گئی تھی۔ حادثے میں 400 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔