امریکہ کے وزیر خارجہ انٹنی بلنکن منگل کو برسلز کے لیے روانہ ہوئے ہیں تاکہ اپنے نیٹو اتحادیوں کے ساتھ روس کی طرف سے یوکرین کی سرحد پر اپنی فوج میں اضافے اور افغانستان میں اتحاد کے آپریشنز سمیت مختلف امور پر تبادلہ خیال کر سکیں۔
اس دورے سے تین ہفتے قبل بھی بلنکن برسلز میں تھےجہاں انہوں نے نیٹو ممالک کے اپنے ہم منصبوں کے اجلاس میں شرکت کی تھی۔ بلنکن نے اس سے پیشتر اپنی ملاقاتوں میں اتحادیوں کے ساتھ تعلقات میں مضبوطی لانے کی امریکہ کی ترجیحات کا اعادہ کیا تھا۔
بلنکن نے پیر کے روز اپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’’ مجھے برسلز جاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے۔ امریکہ اتحادیوں بالخصوص نیٹو اتحادیوں کے ساتھ اپنے تعلقات ازسرنو استوار کرنے کے لیے پرعزم ہے‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم نیٹو کو ٹرانس اٹلانٹک سکیورٹی کے لیے ایک ناگزیر فورم سمجھتے ہوئے اس کی مکمل حمایت پرثابت قدمی سے قائم ہیں۔
بلنکن منگل کے روز یوکرین کے وزیرخارجہ دمترو کلیبا سے بھی ملاقات کر رہے ہیں۔
روس کی جانب سے یوکرین کی سرحد کےنزدیک فوجوں کی حالیہ نقل و حرکت سے امریکہ اور دیگر ملکوں نے تشویش ظاہر کی ہے۔
بلنکن نے نیٹو کے سیکریٹری جنرل ینز سٹولٹنبرگ کے ساتھ پیر کے روز اس صورت حال پر بات چیت کی اور بتایا تھا کہ اس بارے میں باہمی اتفاق ہے کہ روس کو یوکرین کی سرحد کے نزدیک خطرناک حد تک فوجی اضافے اور جاری اشتعال انگیزی بند کر دینی چاہیے۔
سٹولٹنبرگ نے یوکرین کے وزیرخارجہ کلیبا کے ہمراہ منگل کے روز گفتگو میں یوکرین کے لیے حمایت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نیٹو یوکرین کے ساتھ کھڑا ہے۔
سٹولٹنبرگ کا کہنا تھا کہ روس کی جانب سے بڑی تعداد میں فوج میں اضافہ غیر منصفانہ، بلاجواز اور باعث تشویش ہے۔ ان کے بقول روس کو یوکرین کے اردگرد فوجی اضافے اور اشتعال انگیزی کو ختم کردینا چاہیے۔ اسے فوری طور پر فوجوں میں کمی کرنی چاہیے۔
یوکرین کے وزیرخارجہ کلیبا کا کہنا تھا کہ ان کا ملک جنگ نہیں چاہتا اور وہ تنازعات کے سفارتی اور سیاسی حل کے لیے کوشاں ہے۔
امریکی وزارت خارجہ کے یورپی اور یوریشئین امور کے بیورو کے انڈر سکریٹری فلپ ریکرنے صحافیوں کو بتایا ہے کہ بلنکن کی یوکرین کے معاملے پر نیٹو کے لیڈروں سے چیت کا مقصد یہ ہے کہ روس سے کہا جائے کہ وہ اشتعال انگیزکارروائیاں بند کرے اور تحمل کا مظاہرہ کرے۔
امریکہ کے وزیر دفاع لائڈ آسٹن بھی برسلز میں وزیرخارجہ بلنکن کے ہمراہ ہوں گے۔
نیٹو اتحادیوں کے ساتھ گفتگو کا دوسرا اہم موضوع افغانستان کی صورتحال ہو گی، وہ بھی ایسے میں جب امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے مطابق افغانستان میں باقی ماندہ دو ہزار پانچ سو امریکی فوجیوں کے انخلا کی یکم مئی تک کی مہلت میں صرف دو ہفتے باقی ہیں۔
ریکر کا کہنا ہے کہ افغانستان پر گزشتہ ماہ وزراء کی سطح کے مذاکرات کے بعد گفتگو کا یہ ایک اور موقع ہو گا۔ بلنکن نے مارچ میں ہونے والے مذاکرات کے بعد کہا تھا کہ امریکہ نیٹو اتحادیوں کا موقف جاننا اوران سے مشورہ کرنا چاہتا ہے اور افغانستان سے مناسب وقت پر اکٹھے نکلنے کا عزم رکھتا ہے۔