رسائی کے لنکس

یوکرین کی سرحد پر روس کی فوجی نقل و حرکت، امریکہ اور اتحادیوں کا اعتراض


پینٹاگون کے پریس سیکریٹری جان کربی نے کا کہنا تھا کہ روس کا مؤقف اس بارے میں شفافیت پر مبنی نہیں ہے کہ وہ وہاں کیا کر رہا ہے؟ وہاں افواج کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ یہ 2014 کے بعد سب سے بڑی تعداد ہے۔
پینٹاگون کے پریس سیکریٹری جان کربی نے کا کہنا تھا کہ روس کا مؤقف اس بارے میں شفافیت پر مبنی نہیں ہے کہ وہ وہاں کیا کر رہا ہے؟ وہاں افواج کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ یہ 2014 کے بعد سب سے بڑی تعداد ہے۔

روس کے یوکرین کی سرحد کے قریب بڑی تعداد میں فوجیں جمع کرنے پر امریکہ نے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ دوسری جانب امریکہ اپنے حلیفوں کے ساتھ خطے میں جاری کشیدگی کے سلسلے میں مشاورت کر رہا ہے۔

امریکی حکام نے جمعے کو یوکرین کی سرحد کے قریب روسی افواج کی تعداد اور تفصیلات بتانے سے گریز کیا۔ مگر انہوں نے ماسکو کے اقدامات کو اشتعال انگیز اور خطے میں امن کی صورت حال کو غیر مستحکم کرنے کے مترادف قرار دیا۔

واشنگٹن ڈی سی نے روس کے اس مؤقف کی تردید کی ہے کہ یہ فوجیں محض مشقوں کی نیت سے یوکرین کی سرحد کے نزدیک جمع ہیں۔

پینٹاگون کے پریس سیکریٹری جان کربی نے کا کہنا تھا کہ روس کا مؤقف اس بارے میں شفافیت پر مبنی نہیں ہے کہ وہ وہاں کیا کر رہا ہے؟ وہاں افواج کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ یہ 2014 کے بعد سب سے بڑی تعداد ہے۔

جان کربی کا کہنا تھا کہ ماضی میں اتنی تعداد میں روسی افواج کا کہیں جمع ہونا اس کے ہمسایہ ممالک کے لیے نیک شگون نہیں رہا۔

انہوں نے 2014 میں روس کی جانب سے یوکرین کے علاقے کرایمیا کو جبری طور پر ضم کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس بارے میں روس کی ایک تاریخ ہے۔ کئی مقامات پر روسیوں نے ایسے ہی آپریشن کیے ہیں۔ ان کے بقول امریکہ اس تاریخ سے واقف ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسی لیے امریکہ کے حکام اس صورتِ حال کو بہت غور سے دیکھ رہے ہیں۔

وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری جین ساکی نے بریفنگ میں کہا کہ امریکہ اس سلسلے میں اپنے اتحادیوں سے رابطے میں ہے۔ تاکہ اس صورتِ حال کا درست اندازہ کر کے کشیدگی کو کم کیا جائے۔

نیٹو اتحاد کے 72 برس مکمل، کئی نئے چیلنجز کا سامنا
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:30 0:00

ان کے مطابق اس وقت روس اور خطے کے دوسرے ممالک کے ساتھ سفارتی رابطے جاری ہیں۔

جین ساکی نے ان سفارتی کوششوں کی تفصیلات بتانے سے گریز کیا۔ دوسری جانب جرمنی اور فرانس نے بھی روس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے عزائم سے باز رہے۔

اس معاملے پر ترکی کے صدر طیب ایردوان کا کہنا تھا کہ دونباس کے علاقے میں تشدد بڑھنے اور سرحد پر روس کی جانب سے فوج کی تعداد میں اضافے کے بعد سے ترکی، روس اور یوکرین کے درمیان تنازع کو پُر امن انداز میں حل کروانے کے لیے کوشاں ہے۔

ایردوان نے ہفتے کو یوکرین کے صدر ولادیمر زلینسکی سے استنبول میں ہونے والی ملاقات کے بعد دونباس میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کو ختم کرنے کی اپیل کی تھی۔ انہوں نے یوکرینی ہم منصب کو کہا ہے کہ ترکی انہیں ہر ممکن تعاون فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔

جرمنی کے وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے ٹوئٹر پر ایک بیان میں کہا کہ روس کو صورتِ حال کی کشیدگی کم کر کے اپنی افواج کی نقل و حرکت کے بارے میں شفاف انداز سے سامنے آنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ یورپی یونین اور نیٹو کے اتحادیوں کے ساتھ مل کر جرمنی اس صورتِ حال کا بغور جائزہ لے رہا ہے۔

فرانس کے وزیرِ خارجہ یان ییویز ڈرائین نے کہا کہ روس کو اشتعال انگیزی بند کرنی چاہیے اور اس معاملے میں کشیدگی کم کرنے کی فوری کوشش کرنی چاہیے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ عالمی رہنماؤں کے ان مطالبات کا اثر ہوا ہے اور کرملین کے ترجمان دمتری پیسکوو نے جمعے کو روس کی پوزیشن کا دفاع کرتے ہوئے کشیدگی بڑھانے کا الزام یوکرین پر لگاتے ہوئے کہا کہ روس اس سلسلے میں آزاد ہے کہ وہ اپنے علاقے میں افواج کو کیسے حرکت میں لاتا ہے۔

ماسکو کا کہنا تھا کہ یوکرین کی وجہ سے خطہ عدم استحکام کا باعث ہے اور جہاں حالات اتنے خطرناک ہوں وہاں ہر ملک اس بات کی یقین دہانی چاہتا ہے کہ اس کی سرحدیں محفوظ ہوں۔

یاد رہے کہ رواں ہفتے کے اوائل میں یوکرین کے صدر ولادیمیر زلینسکی نے نیٹو سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنے اتحاد میں یوکرین کو شامل کرے تاکہ روس کو ایک سخت پیغام جائے اور وہ دونباس کے علاقے میں لڑائی ختم کرے۔ جہاں بقول یوکرین کے روسی حمایت یافتہ علیحدگی پسند یوکرین کی افواج کے ساتھ 2014 سے لڑ رہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG