رسائی کے لنکس

فلسطینی ریاست  اسرائیل سعودی عرب معاہدے میں ایک اہم معاملہ ہے،کیا اسرائیل قبول کر پائے گا؟


امریکی وزیر خارجہ بلنکن سینیٹ کی کمیٹی میں بات کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم سعودی عرب اسرائیل معاہدے کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں لیکن حتمی فیصلہ اسرائیل نے کرنا ہے۔ فوٹو رائٹرز 21 اپریل 2024
امریکی وزیر خارجہ بلنکن سینیٹ کی کمیٹی میں بات کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم سعودی عرب اسرائیل معاہدے کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں لیکن حتمی فیصلہ اسرائیل نے کرنا ہے۔ فوٹو رائٹرز 21 اپریل 2024
  • امریکہ کے خیال میں مشرق وسطیٰ میں امن اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان معمول کے تعلقات سے قائم ہو سکتا ہے۔
  • سعودی عرب کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ فلسطینی ریاست کے قیام کی راہگزر سے جڑا ہے۔
  • سعودی عرب معاہدے کے بدلے میں امریکہ سے سیکیورٹی ضمانتیں چاہتا ہے۔
  • امریکہ کی دونوں سیاسی جماعتیں اسرائیل ۔سعودی عرب معاہدے کے حق میں ہیں۔

امریکہ کے وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے منگل کو کہا ہے کہ انہیں یقین نہیں ہے کہ آیا اسرائیل سعودی عرب کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے سمجھوتہ کرنے پر تیار ہے، خاص طور پر جب اس کا تعلق فلسطینی ریاست کی راہ ہموار کرنے سے ہو۔

ان کی جانب سے یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب صدر بائیڈن کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے دونوں ملکوں کا دورہ کیا اور وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کو اس تاریخی معاہدے کے ممکنہ پہلوؤں سے آگاہ کیا۔

لیکن بلنکن نے، جو 7 اکتوبر کے اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان کئی بار آ جا چکے ہیں، ان شکوک و شہبات سے اتفاق کیا کہ اگر تعلقات معمول پر لانے کے معاملات مفروضے کی سطح سے آگے بڑھتے ہیں تو کیا نیتن یاہو اور ان کی کٹڑ دائیں بازو کی حکومت سعودی مطالبوں پر پورا اتر سکے گی۔

وزیر خارجہ بلنکن نے سینیٹ کی ایک کمیٹی میں کہا کہ میں آپ کو یہ نہیں بتا سکتا کہ اسرائیل، چاہے وہ وزیر اعظم ہو یا مجموعی طور پر ایک ملک ہو، اس وقت وہ کچھ کرنے پر تیار ہے جو درحقیقت تعلقات معمول پر لانے کے لیے ضروری ہو گا۔

ان کا کہنا تھا، کیونکہ اس کے لیے غزہ میں جنگ کا خاتمہ ضروری ہے اور فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے ایک قابل اعتماد راستے کی ضرورت ہے۔

نیتن یاہو اور اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ دونوں ہی 2020 میں تین عرب ریاستوں، یعنی متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات معمول پر لانے کو ایک اہم کامیابی کے طور پر سراہ چکے ہیں۔

امریکی اور اسرائیلی رہنما سعودی عرب سے تعلقات معمول پر لانے کو ایک بہت بڑی کامیابی کے طور پر دیکھتے ہیں کیونکہ وہ مملکت اسلام کے دو مقدس ترین مقامات کا محافظ ہے۔

لیکن سعودی عرب، اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کے بدلے میں فلسطینی ریاست کے قیام پر پیش رفت چاہتا ہے، جس کی نیتن یاہو برسوں سے مزاحمت کر رہے ہیں۔

اس معاملے میں سعودی عرب، امریکہ سے اتحادی طرز کی حفاظتی ضمانتیں اور شہری مقاصد کے لیے سویلین نیوکلیئر تعاون بھی چاہتا ہے۔

امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان مذاکرات کے بارے میں بات کرتے ہوئے بلنکن نے کہا، کہ میرے خیال میں اب ہم ایک ایسے موڑ پر ہیں جو معاہدے کے بہت قریب ہے۔ ہم معاہدے کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں۔

سعودی عرب کے ساتھ بائیڈن ایک ایسے وقت میں آگے بڑھ رہے ہیں، جب ان کی ڈیموکریٹک پارٹی کے کچھ حلقوں کی طرف سے سعودی ریاست اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کی وجہ سے تنقید کی جا رہی ہے۔

ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر لنڈسے گراہم، جو ٹرمپ کے قریبی اتحادی ہیں، یہ تسلیم کرتے ہیں کہ کانگریس، صدر کی حیثیت سے بائیڈن کے ساتھ امریکہ اور سعودی معاہدے کی منظوری دے سکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک ریپبلکن کے طور پر، میں یہ سمجھتا ہوں کہ میرے زیادہ تر ساتھی امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان سیکیورٹی معاہدے کو قبول کریں گے اگر وہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے لیے تعلقات معمول پر لانے اور ایک روشن مستقبل کا سبب بن سکتا ہو۔

گراہم نے اسرائیل پر زور دیا کہ اس لمحے کو ضائع نہ ہونے دے۔

انہوں نے کہا کہ میں اسرائیل میں اپنے دوستوں کی سلامتی کی ضرورت سے کبھی صرف نظر نہیں کروں گا، لیکن ہمیں ایک دنیا کے طور پر مل بیٹھنا ہو گا اور کچھ سخت فیصلے کرنے ہوں گے۔

(اس رپورٹ کے لیے معلومات اے ایف پی سے لی گئیں ہیں)

فورم

XS
SM
MD
LG