رسائی کے لنکس

جنوبی بحیرہ چین میں تیرتے ہوئے چینی جوہری بجلی گھروں کے منصوبے  سے کیا خطرات ہیں؟


اس تصویر میں جنوبی بحیرہ چین کے متنازع حصے سے چین کے کوسٹل گارڈ کا ایک جہاز فلپائن کے جہاز کا راستہ کاٹ کر گزر رہا ہے۔ چین اور فلپائن دونوں ہی اس علاقے کی ملکیت کے دعویدار ہیں۔ چین اب متنازع پانیوں میں اپنے فوجی منصوبوں کے لیے تیرتے ہوئے جوہری بجلی گھر بھیجنا چاہتا ہے۔
اس تصویر میں جنوبی بحیرہ چین کے متنازع حصے سے چین کے کوسٹل گارڈ کا ایک جہاز فلپائن کے جہاز کا راستہ کاٹ کر گزر رہا ہے۔ چین اور فلپائن دونوں ہی اس علاقے کی ملکیت کے دعویدار ہیں۔ چین اب متنازع پانیوں میں اپنے فوجی منصوبوں کے لیے تیرتے ہوئے جوہری بجلی گھر بھیجنا چاہتا ہے۔
  • بیجنگ جنوبی بحیرہ چین میں 20 تیرتے ہوئے جوہری بجلی گھر بھیجنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
  • اس کا مقصد متنازع سمندر میں چین کی تنصیبات اور نئے منصوبوں کو توانائی فراہم کرنا ہے جن میں سے اکثر فوجی نوعیت کے ہیں۔
  • چین نے متنازع سمندر میں کئی مصنوعی جزیرے تعمیر کر کے وہاں فوجی اڈے بنا لیے ہیں۔
  • ویت نام اور فلپائن بھی اس سمندر پر ملکیت کے دعویدار ہیں اور چین کا یہ اقدام خطے میں کشیدگی کو مزید ہوا دے سکتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ متنازع سمندر جنوبی بحیرہ چین میں تیرتے ہوئے جوہری بجلی گھر بھیجنے کے چینی منصوبوں سے ان ممالک کے ساتھ کشیدگی بڑھنے اور علاقائی سلامتی متاثر ہونے کے خطرات بڑھ سکتے ہیں، جو اس سمندر پر اپنے حق کا دعویٰ کرتے ہیں۔

ماہرین اس کا ایک حل یہ تجویز کرتے ہیں کہ جنوبی بحیرہ چین کے دعویداروں کو چین کا مقابلہ ایک کثیر الجہتی فریم ورک کے تحت کرنا چاہیے۔

مئی کے شروع میں واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ چین، متنازعہ سمندر جنوبی بحیرہ چین میں واقع ان جزائر میں 20 تیرتے ہوئے جوہری بجلی گھر بھیجنے کا ارادہ رکھتا ہے جن پر وہ اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے۔ کئی دوسرے ممالک بھی اس سمندری علاقے کے دعویدار ہیں اور ان کے طویل عرصے سے چین کے ساتھ علاقائی تنازعات چل رہے ہیں۔

ثالثی کی ایک مستقل عدالت نے 2016 میں جنوبی بحیرہ چین پر چین کے دعویٰ کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا تھا کہ اس کی کوئی قانونی بنیاد موجود نہیں ہے۔لیکن اس کے باوجود وہ تقریباً اس تمام سمندری علاقے پر اپنا دعویٰ برقرار رکھے ہوئے ہے اور اس سلسلے میں اس کے ملائیشیا، ویت نام اور فلپائن کے ساتھ کچھ جزائر اور سمندری حصوں کی ملکیت پر اختلافات موجود ہیں۔

بھارت میں قائم آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کے اسٹریٹجک اسٹڈیز پروگرام کی ایسوسی ایٹ فیلو پرتناشری باسو کہتی ہیں کہ جنوبی بحیرہ چین کے دیگر دعویدار چین کی جانب سے جوہری بجلی گھروں کے اس منصوبے کو اپنی خود مختاری کے لیے ایک براہ راست چیلنج کے طور پر دیکھتے ہیں۔

انہوں نے وائس آف امریکہ کو اپنی ایک ای میل میں بتایا کہ اگر چین یہ ری ایکٹر، متنازع جزائر، یا چٹانوں یا مصنوعی طور پر بنائے گئے جزیروں میں تعینات کرتا ہے تو وہ اس علاقے کے دیگر دعویداروں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہو گا۔

باسو نے جوہری توانائی سے متعلق ویت نام کے 2008 کے ایک قانون کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا ہے کہ جوہری توانائی سے چلنے والے جہازوں کو ویت نام کی سمندری حدود میں آنے کے لیے وزیراعظم کی اجازت کی ضرورت ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ فلپائن میں اس طرح کے قوانین موجود نہیں ہیں لیکن وہ پھر بھی اپنی سمندری حدودر میں چینی جوہری پلانٹ کی نگرانی کرنے کے اپنے حق پر زور دے سکتا ہے۔

چین 2014 سے اٹلی کے جزائر کے سلسلے پر اپنے حق کا دعویٰ کر رہا ہے جہاں وہ کچھ مصنوعی جزیرے بنانا چاہتا ہے۔ ویت نام اور فلپائن بھی اس حصے پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ بیجنگ جنوبی بحیرہ چین میں بین الاقوامی قانون سے قطع نظر اپنے قدم مضبوطی سے جمانے کے لیے مصنوعی جزیروں پر جوہری بجلی گھر تعینات کرنا چاہتا ہے جس سے وہاں چین کی گرفت مضبوط ہو جائے گیا جنہیں وہ فوجی مقاصد کے لیے ترقی دے رہا ہے۔

سنگاپور میں قائم یوسف اسحاق انسٹی ٹیوب کے ایک ایسوسی ایٹ سینئر فیلو ہا ہوانگ ہاپ کہتے ہیں ہیں کہ اگر جنوبی بحیرہ چین میں بیجنگ اپنے تیرتے ہوئے جوہری بجلی گھر بھیج دیتا ہے تو اس سے علاقے کے دوسرے ملکوں کے دعوؤں پر کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن اگر چین اپنے جوہری بجلی گھروں کو متنازع جزیروں پر تعینات کرتا ہے تو ویت نام یقینی طور پر احتجاج کرے گا۔

وہ کہتے ہیں کہ اس اقدام سے ویت نام کے علاقائی پانیوں کی خلاف ورزی ہو گی اور دوسرا اس اقدام سے علاقے میں چین کی فوجی سرگرمیوں میں اضافہ ہو جائے گا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر ان جوہری بجلی گھروں سے علاقے میں چین کے جاسوسی کے نظام، فضائی نگرانی، ڈرون کے استعمال اور الیکٹرانک جنگی آلات کو تقویت ملتی ہے تو یہ علاقائی سلامتی کے لیے شدید خطرے کا سبب بن سکتے ہیں۔

آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کی تجزیہ کار باسو کہتی ہیں کہ تیرتے ہوئے جوہری بجلی گھر سمندر میں تیل اور گیس کی تلاش اور خاص طور پر فوجی اڈوں کو توانائی فراہم کرنے میں چین کی مدد کر سکتے ہیں۔

اس سوال کے جواب میں کہ ویت نام اور فلپائن، چین کے اس اقدام کا مقابلہ کرنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟ اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے گارڈین ناٹ سینٹر فار نیشنل سیکیورٹی انوویشن کے ایک ٹیم لیڈ ریمنڈ پاول کہتے ہیں کہ میرا نہیں خیال کہ جنوبی بحیرہ چین میں چین کے جوہری بجلی گھروں کا راستہ روکنے کے لیے کوئی راستہ موجود ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ میں نہیں سمجھتا کہ چین کو روکنے کے لیے باہر سے کوئی دباؤ آئے گا اور یہ بھی واضح نہیں ہے کہ وہ آگے بڑھنے کے لیے کسی بین الاقوامی قانون یا ضابطے کی خلاف ورزی کرے گا۔

تاہم باسو کہتی ہیں کہ تیرتے جوہری بجلی گھروں کے سخت ضوابط پر عمل درآمد کے لیے دباؤ ڈالنے کے لیے عالمی ماحولیاتی اور حفاظتی تنظیموں کے ساتھ اتحاد بنانا ایک آپشن ہو سکتا ہے۔

(لی گیوین، وی او اے نیوز)

فورم

XS
SM
MD
LG