رسائی کے لنکس

ویتنام کے ساتھ اپنے اقتصادی اور سیکیورٹی تعلقات بہتر کرنا ایک ترجیح ہے، ییلن


امریکی وزیر خزانہ جینٹ ییلن ہنوئی کے ایک کارخانے میں سکوٹر پر
امریکی وزیر خزانہ جینٹ ییلن ہنوئی کے ایک کارخانے میں سکوٹر پر

ویب ڈیسک ۔ امریکہ ویتنام کے ساتھ مضبوط اقتصادی اور سیکورٹی تعلقات کو اپنی ترجیح سمجھتا ہے۔ یہ بات امریکی وزیر خزانہ جینٹ ییلن نے جمعرات کو ویتنام کے حکام سے ملاقات کے دوران کہی۔

وزیر خزانہ کے اس دورے کا مقصد ایشیا بھر میں امریکہ کے تعلقات کو مضبوط بنانا ہے۔ییلن بیجنگ اوربھارت کے دوروں کے بعد ویتنام پہنچیں جہاں انہوں نے بیس بڑی صنعتی معیشتوں پر مبنی گروپ کے مالیاتی اجلاسوں میں شرکت کی۔

امریکی محکمہ خزانہ کی طرف سے فراہم کیے جانے والے بیان کے مطابق ییلن نے ویتنام کے وزیر اعظم فام من چن کو بتایاکہ ’’ امریکہ ویتنام کو ایک آزاد اور کھلے ہندبحرالکاہلی خطے کو فروغ دینے کے عمل میں ایک اہم شراکت دار سمجھتا ہے۔

ایک ’’آزاد اور کھلے ہندبحرالکاہلی خطے سے مراد امریکہ کی ان وسیع تر سفارت کاری کی کوششوں کا اعادہ ہے جس کا مقصد خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ مضبوط تعلقات استوار کرنا ہے تاکہ چین کے اپنے پڑوسیوں پر بڑھتے ہوئے اثر ات کا مقابلہ کیا جا سکے۔

ییلن نے کہا: ’’ ویت نام ایک قریبی اقتصادی شراکت دار بھی ہے اور ہماری دو طرفہ تجارت گزشتہ سال ریکارڈ بلندیوں پر رہی۔ امریکہ ویتنام کی سب سے بڑی برآمدی منڈی کے طور پر اہمیت اختیار کر رہا ہے۔‘‘

وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ ’’ہماری انتظامیہ کے لیے ویتنام کے ساتھ اپنے اقتصادی اور سیکورٹی تعلقات کو آنے والے مہینوں اور سالوں میں گہرا کرنا ایک ترجیح ہے۔‘‘

ہنوئی کے سرسبز و شاداب مضافات میں ایک فیکٹری کے دورے کے دوران ییلن تھوڑی دیر کے لیے سرخ رنگ کے الیکٹرک سکوٹر پر
بیٹھیں جہاں پانچ سال پرا نا ویتنامی ادارہ موٹرز سیلیکس، ای وی یعنی الیکٹرک وہیکل سکوٹر اور بیٹریاں تیار کرتا ہے۔

ویت نام میں ایک الیکٹرک ٹیکسی
ویت نام میں ایک الیکٹرک ٹیکسی

امریکی وزیر خزانہ جینٹ ییلن نے اس فیکٹری کو ’’متاثر کن‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی دنیا کی بقا کے لیے خطرہ ہے لیکن یہ ایک ’’اہم اقتصادی موقع‘‘ اور ’’ہماری معیشتوں میں زیادہ لچک‘‘ پیدا کرنے کا طریقہ بھی فراہم کرتی ہے۔

ییلن نے کہا کہ امریکہ نے کووڈ کی وبا کے نتیجے میں درپیش رکاوٹوں کا سامنا کرنے کے بعد متنوع سپلائی چین کی اہمیت کو تسلیم کیا۔ ’’اور پھر جب روس نے یوکرین پر حملہ کیاتو متعدد ممالک نے دیکھا کہ ضرورت سے زیادہ کسی پر انحصار کرنے کے کیا اثرات ہو سکتے ہیں ۔اس حوالے سے قدرتی گیس اور تیل کے لیے یورپ کے روس پر انحصار کے معاملے میں دیکھا گیا کہ اسے کس طرح سے جغرافیائی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘‘

ییلن نے کہا کہ امریکہ جسٹ انرجی ٹرانزیشن پارٹنرشپ یا جے ای ٹی پی کے ایک حصے کے طور پر ویتنام کے لیے پندرہ بلین ڈالر جمع کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ یہ سات ترقی یافتہ معیشتوں کے گروپ کی طرف سے کیا گیا ایک مالیاتی وعدہ ہے جس کا مقصد ملک کو فوسل فیول پر انحصار ختم کرنے میں مدد دینا ہے ۔ اس طرح کے منصوبوں نے جنوبی افریقہ اور انڈونیشیا کو بھی اسی طرح کی مراعات کی پیشکش کی ہے۔

امریکی اور ویت نامی پرچم
امریکی اور ویت نامی پرچم

ییلن نے کاروباری خواتین اور ماہرین اقتصادیات کے ایک گروپ سے بھی بات کی اور کہا کہ انہیں یہ دیکھ کر خوشی ہوئی ہے کہ ویتنام میں کمپیوٹر چپس اور قابل تجدید توانائی سمیت صنعتوں میں سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے۔ ییلن کا دورہ ہندبحرالکاہلی خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ میں توازن لانےکے لیے امریکہ کی مشترکہ کوششوں کا حصہ ہے۔امریکہ کے وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے بھی اس سال کے شروع میں ویتنام کا دورہ کیا تھا جو ویت نام سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کی پچاسو یں سالگرہ کے کچھ ہفتوں بعد ہوا ۔ امریکی فوجیوں کاانخلا ویتنام میں امریکہ کی براہ راست فوجی مداخلت کا خاتمہ تھا ۔ امریکی وزیر خارجہ نے دو طرفہ تعلقات کو نئی سطح تک بڑھانے کے عہد کا اظہار کیا۔

دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات 1995 میں بحال ہوئے تھے۔ اس وقت سے اب تک دوطرفہ تجارت میں اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ سال ساز و سامان کی تجارت 138 بلین ڈالر کی بلند سطح پر پہنچ گئی ۔

چین کی سرحد ہنوئی اور ویتنام سے 60 میل (96 کلومیٹر) کی مسافت سے بھی کم ہے۔ چین کےساتھ متعدد پڑوسیوں کے بحیرہ جنوبی چین میں سمندری اور علاقائی تنازعات رہے ہیں ۔ چین اور ویت نام نے 1979 میں ایک مختصر جنگ بھی لڑی تھی تاہم اب چین ویتنام کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔

اس رپورٹ کی تفصیلات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں ۔

XS
SM
MD
LG