امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن پیر کے روز بیلجئم کے دارالحکومت برسلز پہنچے جہاں، امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق، وہ ماحولیاتی تبدیلی، انسدادِ دہشت گردی اور کرونا وائرس سے نمٹنے جیسے معاملات میں شراکت داری کو فروغ دینے کے لیے یورپی رہنماؤں سے ملاقاتیں کریں گے۔
منگل اور بدھ کے روز وہ نیٹو کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں شرکت کرنے کے ساتھ ساتھ نیٹو کے سیکرٹری جنرل ینس سٹولٹن برگ سے ملاقات کریں گے۔
بلنکن کی روانگی سے قبل میڈیا نمائندوں سے بات کرتے ہوئے امریکی محکمہ خارجہ میں بیورو فار یورپین اینڈ یوریشئین افیئرز کے قائم مقام معاون وزیر خارجہ فلپ رِیکر کا کہنا تھا کہ وزیر خارجہ بلنکن اور دیگر وزرائے خارجہ کے لیے یہ ایک موقعہ ہو گا کہ وہ "نیٹو 2030 انیشی ایٹو" پر بحث مباحثہ کر سکیں۔
فلپ ریکر کا کہنا تھا کہ نیٹو کے اجلاس میں چین اور روس سے متعلق تشویش، ماحولیاتی تبدیلی، سائبر سیکیورٹی، خصوصی اور عمومی خطرات، دہشت گردی سے مقابلہ، توانائی کی سیکیورٹی اور عالمی وبا کے ساتھ ساتھ مشترکہ طور پر درپیش چیلنجوں پر پیش کی جانے والی تجاویز کی منظوری دی جائے گی۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے " امریکی مفادات کو ترجیح دینے کی خارجہ پالیسی" کے چار سال بعد، بلنکن برسلز میں اجلاس سے خطاب کریں گے جس میں مختلف اتحادوں کی تعمیر نو اور انہیں مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ نیٹو کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے گا۔
ریکر کا کہنا تھا کہ سب جانتے ہیں کہ لوگ مل کر زیادہ بہتری اور مضبوطی کے ساتھ چیلنجوں کا سامنا کر سکتے ہیں۔ اس لئے ہم اپنے اتحادوں میں جدت اور اُن میں ضرورت کے مطابق تبدیلیاں کریں گے، اور جیسا چیلنج ہو گا ویسا ہی اس کا سامنا کیا جائے گا۔
بلنکن کے دورے کی تفصیلات کے مطابق، وہ یورپی کمیشن کی صدر ارسلا ونڈر لین، یورپی یونین کے خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزیپ بوریل سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق، ان ملاقاتوں میں کرونا وائرس سے پھیلنے والی عالمی وبا کے بعد معاشی بحالی اور ایران، روس اور چین کی جانب سے لاحق چیلنجوں سے نمٹنے پر بات کی جائے گی۔
فلپ ریکر کے مطابق، امریکی وزیر خارجہ خاص طور پر اپنے یورپی شرکت داروں سے 2015 میں طے پانے والے جوہری معاہدے پر امریکہ اور ایران کی باہمی واپسی کے امکانات پر صلاح مشورہ کریں گے۔
اس معاہدے کے تحت ایران کو اپنا جوہری پروگرام محدود کرنا تھا جس کے عوض اس کے خلاف عائد پابندیوں میں نرمی کی جانا تھی۔ 2018 میں امریکہ اس معاہدے سے الگ ہو گیا اور ایران نے بھی ردِ عمل میں اپنی ذمہ داریوں سے پیچھے ہٹنا شروع کر دیا۔ تاہم اب دونوں نے اس معاہدے میں واپسی کی رضا مندی ظاہر کی ہے، لیکن دونوں چاہتے ہیں کہ دوسرا فریق اس میں پہل کرے۔
اینٹونی بلنکن اپنے دورے کے دوران بیلجئیم کی نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ سوفی ولیمز سے بھی دو طرفہ امور پر بات چیت کریں گے۔