رسائی کے لنکس

افغانستان میں نمازِ جمعہ کے دوران مسجد میں دھماکہ، 100 سے زائد افراد ہلاک و زخمی


فائل فوٹو
فائل فوٹو

افغانستان کے شمالی صوبے قندوز میں ایک مسجد میں نمازِ جمعہ کے دوران دھماکہ ہوا ہے جس سے 100 سے زائد افراد ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔

خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ دھماکہ اہلِ تشیع کی مسجد میں اس وقت ہوا جب وہاں جمعے کی نماز ادا کی جا رہی تھی۔

دھماکے کے حوالے سے ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز (ایم ایس ایف) کا کہنا ہے کہ قندوز میں ہونے والے دھماکے کے فوری بعد ٹراما سینٹر میں ہنگامی حالات نافذ کر دیے گئے تھے۔

سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا گیا کہ ابتدائی طور پر 90 زخمیوں اور 20 ہلاک شدگان کو اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔

بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دھماکے میں مزید اموات بھی ہوئی ہیں۔ ان افراد ہلاک شدگان کو دیگر اسپتالوں میں منتقل کیا گیا تھا۔

دوسری جانب اقوامِ متحدہ کے افغانستان سے متعلق معاونت کے مشن کا کہنا ہے کہ قندوز میں دھماکے میں ہونے والی بڑی تعداد میں اموات پر شدید تشویش ہے۔

سوشل میڈیا پر ایک بیان میں اقوامِ متحدہ کے مشن نے کہا ہے کہ قندوز کے علاقے خان آباد میں ہونے والے دھماکے میں ابتدائی طور پر 100 افراد کے ہلاک اور زخمی ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

بیان میں واضح کیا گیا ہے کہ دھماکہ مسجد کے اندر ہوا ہے۔

اقوامِ متحدہ کے مشن کا مزید کہنا ہے کہ حالیہ دھماکہ بھی حالیہ دنوں میں ہونے والی دیگر پرتشدد کارروائیوں کی طرح پر کیا گیا ہے۔

بیان کے مطابق ایک ہفتے میں یہ تیسرا ہلاکت خیز حملہ ہے جس میں کسی مذہبی مقام کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ اتوار کو داعش نے کابل میں مسجد کے باہر ہونے والے دھماکے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ اس کے بعد خوست میں ایک مدرسے کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

واضح رہے کہ جمعے کو ہونے والے دھماکے کی نوعیت واضح نہیں ہو سکی ہے جب کہ اس کی ذمہ داری بھی فوری طور پر کسی گروہ نے قبول نہیں کی۔

عینی شاہدین نے ’اے پی‘ کو بتایا کہ مسجد میں نماز ادا کی جا رہی تھی جب انہوں نے ایک زور دار دھماکے کی آواز سنی۔

طالبان نے بھی مسجد میں ہونے والے دھماکے میں ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔

واضح رہے کہ اتوار کو بھی افغانستان میں مسجد میں دھماکہ ہوا تھا۔ دارالحکومت کابل میں مسجد میں ہونے والے دھماکے اس دھماکے میں پانچ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اتوار کو ہونے والا دھماکہ اس وقت ہوا تھا جن طالبان کے عبوری نائب وزیرِ اطلاعات ذبیح اللہ مجاہد کی والدہ کے انتقال پر اتوار کو کابل کی عید گاہ مسجد میں تعزیتی اجلاس جاری تھا۔

طالبان نے کابل کی مسجد کے باہر ہونے والے دھماکے کے بعد جوابی کارروائی میں داعش کے متعدد ارکان کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ دھماکے کے ایک روز بعد پیر کو طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں کہا تھا کہ طالبان نے کابل کے شمالی علاقے خیر خانہ میں داعش کے ٹھکانوں پر کارروائی کی ہے جس کے نتیجے میں متعدد جنگجو مارے گئے۔

اس سے قبل داعش نے 26 اگست کو کابل ایئرپورٹ کے باہر ہونے والے دھماکے کی ذمے داری قبول کی تھی جس میں 169 افغان شہری اور 13 امریکی اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔

حالیہ دھماکہ طالبان کے لیے ایک بڑا چیلنج بن کر سامنے آئے ہیں۔ قبل ازیں طالبان بھی 20 سالہ افغان جنگ کے دوران اس طرح کے حملے کرتے رہے ہیں جب کہ داعش نے بھی حملوں کا وہی طریقہ اختیار کیا ہے۔

امریکہ کی جانب سے 2019 میں داعش کے خلاف بمباری کے نتیجے یہ شدت پسند تنظیم کمزور ہو گئی تھی البتہ 2020 میں اس نے افغانستان میں دوبارہ اپنی جڑیں مضبوط کرنے کی کوشش کی ہے۔

کیا افغانستان میں طالبان کو داعش سے خطرہ ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:46 0:00

حالیہ ہفتوں میں طالبان دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ افغانستان میں داعش موجود نہیں ہے۔ گزشتہ ماہ کے آخر میں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کابل میں ایک نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ داعش کے نام سے افغانستان میں سرگرم عسکریت پسندوں کا شام اور عراق میں لڑنے والوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

ذبیح اللہ مجاہد کا دعویٰ تھا کہ داعش کی افغانستان میں حقیقی موجودگی نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ کچھ لوگ، جو افغان ہوں، داعش کا نظریہ اپنا چکے ہوں، البتہ یہ نظریہ افغانستان میں نہ تو مقبول ہے اور نہ ہی اسے افغان باشندوں کی حمایت حاصل ہے۔

اس رپورٹ میں مواد خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے شامل کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

XS
SM
MD
LG