عراق نے کہا ہے کہ امریکہ کی ایک عدالت کی جانب سے اُن پانچ امریکی محافظوں کے خلاف الزامات ساقط کرنے کا فیصلہ افسوس ناک ہے،جن پر 2007ء میں عام عراقی شہریوں کو ہلاک کرنے کے الزام کے تحت مقدمہ چلایا گیا تھا۔
عراقی حکومت کے ترجمان علی الدّباغ نے جمعے کے روز کہا ہے کہ عراق کی اپنی چھان بین سے پتا چلتا ہے کہ یہ ملزمین واقعی جرم کے مرتکب ہوئے تھے۔ عراقی عہدے داروں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ انصاف کے حصول کے لیے دوسرے وسائل استعمال کریں گے۔
وہ پانچوں محافظ ’بلیک واٹر ورلڈ وائڈ‘ کے لیے کام کررہے تھے۔ یہ سکیوریٹی کی وہ نجی کمپنی ہے جسے امریکی حکومت نے ٹھیکہ دیا ہوا تھا۔اُس واقعے کے بعد کمپنی نے اپنا نام تبدیل کرکے ’زی سروسز‘ کرلیا ہے۔کمپنی کے چیر میں نے ایک بیان جاری کیا ہے، جس میں انہوں نے الزامات ساقط کرنے کے بارے عدالت کے فیصلے کی حمایت کی ہے۔
لیکن عراق میں امریکہ کے چوٹی کے کمانڈر جنرل رے اوڈیرنو نے کہا ہے کہ اس فیصلے کے نتیجے میں عراق میں کام کرنے والی سیکیورٹی کی دوسری غیر ملکی کمپنیوں کے خلاف منفی ردّ عمل ظاہر ہوسکتا ہے۔
امریکہ کے وکلائے استغاثہ نے اُن گارڈز پر الزام عائد کیا تھا کہ انہوں نے ستمبر 2007ء میں عراق کے ایک بارونق چوراہے پر غیر مسلح عام شہریوں پر فائرنگ کرکے 17 لوگوں کو مار ڈالا تھا۔
لیکن امریکہ کے ایک وفاقی جج نے جمعرات کے روز یہ فیصلہ سناتے ہوئےکہ امریکی حکومت نے مدعا علیہم کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی کی تھی، پانچوں گارڈز کے خلاف الزامات کو ساقط کردیا۔
ایک چھٹا گارڈ بِلا ارادہ قتل کے الزامات کے تحت پہلے ہی اقبالِ جرم کرچکا ہے۔
امریکی محکمہ انصاف کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ وکلائے استغاثہ اس معاملے میں دوسرے متبادل طریقوں پر غور کررہے ہیں۔
فائرنگ کے اُس واقعے کے بعد بلیک واٹر ورلڈ وائڈ کا عراق میں کام کرنے کا لائسینس منسوخ کردیا گیا تھا اور کمپنی امریکی محکمہ خارجہ کے دیے ہوئے کئى نفع بخش ٹھیکوں سے محروم ہوگئى تھی۔