پاکستان کی ایک ذیلی عدالت نے سزائے موت کے مبینہ ذہنی مریض قیدی کی سزا پر عمل درآمد کے لیے بلیک ورانٹ جاری کر دیے ہیں۔
55 سالہ خضر حیات سابق پولیس اہلکار ہے جسے اپنے ایک ساتھی پولیس اہلکار کو گولی مار کر قتل کرنے کے جرم میں 2003 میں سزائے موت سنائی گئی تھی اور وہ گزشتہ کئی سالوں سے لاہور کی سنٹرل جیل میں بند ہے۔
قیدیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم "جسٹس پروجیکٹ پاکستان" کا کہنا ہے کہ خضر حیات کے وکیل نے اس کی ذہنی بیماری کی بنا پر سزائے موت پر عمل درآمد روکنے کے لیے 2015 میں لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
جسٹس پروجیکٹ پاکستان کی ترجمان رمل محی الدین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ لاہور کی ایک ضلعی عدالت نے منگل کو خضر حیات کے بلیک وارنٹ جاری کیے ہیں اور ان کو پھانسی دینےکے لیے17 جنوری کی تاریخ مقرر کی ہے۔
رمل نے کہا کہ "آج (بدھ) کو ہم نے (سزا رکوانے کے لیے) لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہے جس کی سماعت جمعرات کو ہو گی۔"
رمل محی الدین نے کہا کہ خضر حیات کو پھانسی دینا نا صرف بین الاقوامی کنونشنز کی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ ملکی قانون کے بھی خلاف ہو گا۔
واضح رہے کہ پاکستان میں ایک اور ایسے ہی قیدی کی سزائے موت کو رکوانے کا معاملہ پاکستان کی سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔
پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے ذہنی طور پر معذور سزائے موت کے قیدی امداد علی کی سزا پر گزشتہ سال عمل درآمد روکنے کا حکم جاری کرتے ہوئے ان کی ذہنی صحت کے جائزے لیے ایک طبی بورڈ تشکیل دینے کا حکم دیا تھا۔
پاکستان کی مختلف جیلوں میں سزائے موت کے آٹھ ہزار سے زائد قیدی بند ہیں۔
پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر مہلک حملے کے بعد ملک میں سزائے موت پر عائد عارضی پابندی کو ختم کر دیا گیا تھا جس کے بعد سے اب تک لگ بھگ 400 مجرموں کو تختہ دار پر لٹکایا جا چکا ہے۔
انسانی حقوق کی مقامی و بین الاقوامی تنظیمیں پاکستانی حکومت سے سزائے موت کو ختم کرنے اور پھانسیوں پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کرتی رہیں ہیں تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ ملک کو درپیش مخصوص حالات میں قانون کے مطابق دی گئی سزاؤں پر عملدرآمد ضروری ہے۔