بھارت میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی چھ ہزار سے زائد شخصیات نے ایک مشترکہ بیان میں سپریم کورٹ سے گجرات حکومت کے بلقیس بانو گینگ ریپ کیس کے سزا یافتہ قیدیوں کی رہائی کا فیصلہ منسوخ کرنے اور انھیں دوبارہ گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
اس بیان پر دستخط کرنے والوں میں متعدد عام شہریوں کے علاوہ سماجی کارکن، انسانی حقوق کے نمائندے، سرکردہ قلم کار، تاریخ داں، اسکالر، فلم ساز، صحافی، ماہرین قانون اور سابق بیوروکریٹ شامل ہیں۔
مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ 15 اگست کی صبح کو تاریخی لال قلعےمیں خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے خواتین کے حقوق، ان کے احترام اور انھیں بااختیار بنانے کی بات کی تھی۔ لیکن اسی دن انصاف کے لیے طویل لڑائی لڑنے والی گجرات کی بلقیس بانو کو یہ معلوم ہوا کہ ان کے ساتھ اجتماعی زیادتی کرنے والوں اور ان کی تین سالہ بیٹی سمیت ان کے خاندان کے 14 افراد کو قتل کرکے سزا پانے والوں کو جیل سے رہا کر دیا گیا ہے۔
گجرات میں فسادات کے دوران تین مارچ 2002 کو جب 20 سالہ بلقیس بانو اپنے تحفظ کی خاطر داہود ضلع کے نمکھیڑا تعلقہ سے دوسری جگہ منتقل ہو رہی تھیں تو ان کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی تھی۔ اس وقت وہ پانچ ماہ کے حمل سے تھیں۔ حملہ آوروں نے ان کی تین سال کی بیٹی صالحہ سمیت 14 افراد کو قتل بھی کر دیا تھا۔
عدلیہ سے اس مشترکہ اپیل میں کہا گیا ہے کہ گینگ ریپ اور قتل کے مجرموں کو معافی دے کر رہا کرنے سے عدالتی نظام پر اس سنگین جرم سے متاثر ہونے والی خواتین کے اعتماد کو ٹھیس پہنچے گی۔ انصاف کے لیے آواز اٹھانے والوں کی حوصلہ شکنی اور ایسے جرائم کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوگی۔
بیان میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ عدالتی نظام پر خواتین کا اعتماد بحال کیا جائے اور بلقیس بانو کیس میں سزا پانے والے قیدیوں کو فوراً گرفتار کرکے دوبارہ عمر بھر کے لیے واپس جیل بھیجا جائے۔
اس بیان میں کہا گیا ہے کہ جن کیسز کی جانچ سینٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن (سی بی آئی) کرتی ہے ان میں ریاستی حکومت کو مرکزی حکومت سے مشورے کے بغیر معافی دینے کا اختیار نہیں ہے۔ بیان میں اس معاملے میں رہائی کے لیے کارروائی پر سوال کھڑے کیے گئے ہیں۔
بیان پر دستخط کرنے والوں میں معروف مصنف اور سماجی کارکن ارون دھتی رائے، سیدہ حمید، میرا سنگھ مترا، ڈاکٹر ظفر الاسلام خان، ڈاکٹر روپ ریکھا ورما، دیوکی جین، اوما چکرورتی، شبنم ہاشمی، سبھاشنی علی، کویتا کرشنن، میمونہ ملا، حسینہ خان، ذکیہ سومن، انل بھاردواج، پونم کوشک، کلیانی مینن سین، وحیدہ نینار، مونیشا بہل، امریتا جوہری، اقصا شیخ اور نویدیتا مینن سمیت متعدد شخصیات ، خواتین اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں اور متعدد تنظیموں کے نمائندے بھی شامل ہیں۔
بیان پر دستخط کرنے والوں میں سے ایک دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین، انسانی حقوق کے سرگرم کارکن، صحافی اور دانشور ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ یہ ایسا فیصلہ ہے جس نے ہر انصاف پسند شخص صدمے میں مبتلا کر دیا ہے۔
انھو ں نے کہا کہ پورے ملک کو شرمندہ کرنے والے خطر ناک مجرموں کو رہا کر دیا گیا ہے جو کہ حکومت کی پالیسی کے خلاف ہے۔ یہ قدم گجرات ہائی کورٹ کے فیصلے اور انصاف کے منافی ہے۔ اس فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ان لوگوں کو تاعمر جیل میں رہنا ہوگا۔ یہ ایسا جرم تھا جس میں عمر قید کا مطلب پوری زندگی جیل میں رہنا ہے۔
ڈاکٹر ظفر الاسلام نے کہا کہ ان مجرموں کی رہائی کے بعد متاثرہ خاتون بلقیس کی زندگی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ انھوں نے جیل سے رہائی کے موقعے پر ان قیدیوں کےا استقبال پر حیرت کا اظہار کیا اور سپریم کورٹ سے اپیل کی کہ اس فیصلے کو فوراً ختم کیا جائے اور سزا یافتگان کو دوبارہ جیل میں ڈالا جائے۔
’قیدی برہمن اور اعلیٰ کردار کے مالک ہیں‘
ریاست گجرات میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے گودھرا سے رکن اسمبلی اور قیدیوں کے معاملے پر غور کرنے والی کمیٹی کے ایک رکن سی کے راول جی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ تمام قیدی برہمن ہیں جو کہ اعلیٰ کردار اور اقدار کے مالک ہیں۔
انھوں نے ایک میڈیا ادارے ’موجو نیوز‘ سے بات کرتے ہوئے قیدیوں کے جرم کے ارتکاب پر شبہے کا اظہار کیا اور کہا کہ فرقہ وارانہ صورت حال میں ایسا ممکن ہے کہ بے قصور لوگوں کو مذکورہ جرم کا ذمے ٹھہرایا گیا ہو۔
ان کے بقول 2002 میں بلقیس بانو کے ساتھ کیا ہوا تھا مجھے نہیں معلوم۔ ہماری کمیٹی سپریم کورٹ کی ہدایت پر بنی تھی۔ ہم نے جیل میں قیدیوں کے اخلاق و کردار پر غور کیا اور جیلر سے بات کی۔ اس نے بتایا کہ جیل میں ان لوگوں نے کوئی دنگا فساد نہیں کیا۔ اسی بنیاد پر انھیں رہا کرنے کی سفارش کی گئی۔
ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں اس بیان کے بارے میں کہتے ہی کہ یہ بی جے پی کے ہندوتوا کے نظریے پر روشنی ڈالتا اور اس کے ذات پات کے اس نظام کو واضح کرتا ہے۔ ان کے بقول، اس نظام میں برہمنوں کو اعلیٰ مانا گیا ہے اور یہ نظریہ قائم کیا گیا ہے کہ برہمن کوئی غلطی نہیں کر سکتا۔
دریں اثنا 2008 میں ان ملزموں کو مجرم قرار دینے والے اور انھیں عمر قید کی سزا سنانے والے جسٹس یو ڈی سالوے نے کہا ہے کہ ’جس پر گزرتی ہے وہی بہتر جانتا ہے‘۔ انھوں نے کہا کہ قیدیوں کو معاف کرنے سے متعلق رہنما ہدایات موجود ہیں۔ اس سلسلے میں سپریم کورٹ کے فیصلے بھی موجود ہیں۔
انھوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بہت پہلے فیصلہ سنایا گیا تھا۔ اب یہ معاملہ ریاستی حکومت کے ہاتھ میں ہے۔ حکومت نے فیصلہ کیا ہے۔ اب یہ صحیح ہے یا نہیں اس کا فیصلہ متعلقہ عدالت یا پھر سپریم کورٹ کرے گی۔
گجرات ہائی کورٹ کے جج جسٹس مردولا بھٹکر نے، جنھوں نے ممبئی خصوصی عدالت کے سزا کے فیصلے کو بحال رکھا تھا، کہا کہ اس فیصلے کے لیے عدالت کو قصوروار نہ ٹھہرایا جائے۔ یہ فیصلہ حکومت نے کیا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ عوام عدلیہ کے خلاف کیوں احتجاج کر رہے ہیں۔ عدلیہ نے عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے اپنی جانب سے بہتر قدم اٹھایا تھا۔
خیال رہے کہ قیدیوں کی رہائی کی سفارش کرنے والی کمیٹی کے دس ارکان میں سے پانچ بی جے پی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں دو بی جے پی کے رکن اسمبلی بھی ہیں۔
گجرات حکومت کے اس فیصلے کے خلاف ملک کے مختلف علاقوں میں انسانی حقوق کے کارکنوں اور سماجی تنظیموں کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ اس معاملے پر بی جے پی کی جانب سے تاحال کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔