امریکہ کے صدر جو بائیڈن اور روسی ہم منصب ولادی میر پوٹن کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ ہوا ہے جس کے دوران دونوں رہنماؤں نے مختلف امور پر بات چیت کی۔
جو بائیڈن نے بدھ کو روسی ہم منصب کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے روسی اپوزیشن رہنما الیکسی نیوالنی کی گرفتاری، روس کی جانب سے سائبر جاسوسی کی مہم اور افغانستان میں امریکی فوجیوں کے سر کی قیمت رکھنے سے متعلق خبروں پر تحفظات کا اظہار کیا۔
امریکہ کے صدر کی حیثیت سے جو بائیڈن کا روسی ہم منصب کے ساتھ یہ پہلا رابطہ ہے جس میں انہوں نے پوٹن کو امریکہ کے تحفظات سے آگاہ کیا۔
بائیڈن کی گفتگو سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کی نفی کی عکاس ہے جو اپنی چار سالہ مدتِ صدارت کے دوران روسی ہم منصب کے ساتھ خوش گوار تعلقات کا کھل کر اظہار کرتے تھے۔
سابق صدر ٹرمپ اکثر پوٹن کا دفاع کرتے تھے جن پر ڈیموکریٹ پارٹی کی جانب سے یہ الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ انہوں نے 2016 کے امریکی صدارتی انتخابات میں مداخلت کی تھی۔
صدر بائیڈن کے قریبی ذریعے نے بتایا ہے کہ امریکی صدر نے روسی ہم منصب کو دورانِ گفتگو کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان جوہری ہتھیاروں کو محدود کرنے سے متعلق معاہدے کی میعاد آئندہ ماہ کے اوائل میں مکمل ہو رہی ہے اس لیے معاہدے میں مزید پانچ برس کی توسیع کر دینی چاہیے۔
دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی گفتگو سے متعلق ماسکو کی جانب سے اب تک کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
فوری طور پر یہ واضح نہیں ہے کہ روسی صدر پوٹن نے جو بائیڈن کی جانب سے اٹھائے جانے والے مسائل پر کیا ردِ عمل دیا۔
امریکی صدر نے پیر کو صحافیوں سے گفتگو کے دوران کہا تھا کہ روس سے اختلافات کے باوجود دونوں ملک ایک نئے معاہدے کے تحت اپنے مفادات کے لیے ایک ساتھ کام کر سکتے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ امریکہ روس پر یہ واضح کر دینا چاہتا ہے کہ ہمیں روس کے رویے پر تحفظات ہیں چاہے وہ الیکسی نیوالنی کی گرفتاری کا معاملہ ہو یا افغانستان میں امریکی فوجیوں کے سروں کی قیمت رکھنے سے متعلق خبریں۔
صدر بائیڈن نے روسی ہم منصب کے سامنے الیکسی نیوالنی کا معاملہ ایسے موقع پر اٹھایا ہے جب روس کے 100 سے زیادہ شہروں میں حکومت مخالف احتجاج میں شامل 3700 سے زیادہ افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔
یاد رہے کہ روسی اپوزیشن رہنما نیوالنی صدر پوٹن کے شدید مخالف ہیں۔ نیوالنی پر گزشتہ سال اگست میں زہر کے ذریعے جان لیوا حملہ کیا گیا تھا۔ نوالنی کے حامی اس کا الزام صدر پوٹن پر عائد کرتے رہے ہیں۔
بعدازاں نوالنی کو علاج کے لیے جرمنی منتقل کیا گیا تھا۔ تاہم جرمنی میں علاج مکمل ہونے کے بعد گزشتہ ہفتے جب وہ وطن واپس پہنچے تو روسی حکومت کے خلاف ایک مرتبہ پھر مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔
صدر بائیڈن نے منگل کو روسی ہم منصب سے ٹیلی فونک گفتگو سے قبل مغربی ملکوں کے عسکری اتحاد نیٹو کے سربراہ جنرل جینز اسٹولٹنبرگ سے بھی رابطہ کیا۔
صدر بائیڈن نے نیٹو سربراہ کو دوسری جنگِ عظیم کے بعد طے پانے والے معاہدے پر امریکہ کے قائم رہنے کی یقین دہانی کرائی۔ یہ معاہدہ روسی جارحیت کے خطرے کے خلاف مغربی ملکوں کے اتحاد کے طور پر تشکیل پایا تھا۔
واضح رہے کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی مدت صدارت کے دوران اکثر نیٹو اتحادیوں کے ساتھ جھگڑتے اور یہ شکوہ کرتے کہ وہ باہمی دفاع کے لیے خاطر خواہ رقم فراہم نہیں کرتے۔