ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدواروں کے انتخاب کے لیے منگل کو ہونے والے پرائمری کا میدان سابق نائب صدر جو بائیڈن نے مار لیا ہے۔ انہوں نے 14 میں سے آٹھ ریاستوں میں کامیابی حاصل کی ہے۔
امریکہ کی 14 ریاستوں میں منگل کو ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدواروں کے انتخاب کے لیے پارٹی کے رجسٹرڈ ووٹرز نے ووٹ ڈالے جس کے نتائج آنے کا سلسلہ جاری ہے۔
ابتدائی نتائج کے مطابق سابق نائب صدر جو بائیڈن کم از کم آٹھ ریاستوں میں کامیاب ہو گئے ہیں جب کہ اُن کے حریف برنی سینڈرز تین ریاستوں میں برتری حاصل کر سکے ہیں۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق جو بائیڈن نے ریاست الباما، شمالی کیرولائنا، اوکلاہوما، ٹینیسی، آرکنسا، میساچوسیٹس، منی سوٹا اور ورجینیا کے پرائمری میں کامیابی حاصل کی ہے۔
جو بائیڈن کو افریقی امریکنز، سینئر ووٹرز اور اعتدال پسند ووٹرز کی حمایت حاصل تھی۔
ابتدائی تین پرائمری اور کاکس میں جوبائیڈن کو بری طرح شکست ہوئی تھی لیکن ان کی کامیابی کا آغاز جنوبی کیرولائنا کے پرائمری سے ہوا جس کا تسلسل 'سپر ٹیوزڈے' کو بھی دیکھا گیا۔
ایڈیسن ریسرچ کے مطابق جو بائیڈن کے حریف برنی سینڈرز نے تین ریاستوں میں کامیابی حاصل کی ہے جس میں ان کی آبائی ریاست ورمونٹ کے علاوہ کولوراڈو اور یوٹا شامل ہیں۔
امریکہ کی تمام 50 ریاستوں میں ڈیموکریٹک پارٹی کے پرائمری اور کاکس کے بعد ڈیلیگیٹس (مندوبین) جولائی کے مہینے میں حتمی امیدوار کا انتخاب کریں گے جو رواں برس تین نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا مقابلہ کرے گا۔
سابق نائب صدر جو بائیڈن اور برنی سینڈرز کے درمیان سخت مقابلہ ہے۔ اب تک جو بائیڈن کے پاس 371 اور سینڈرز کے پاس 301 ڈیلیگیٹس ہیں۔ ڈیموکریٹک صدارتی نامزدگی حاصل کرنے کے لیے امیدوار کے پاس 1991 ڈیلیگیٹس کی تعداد ہونا ضروری ہے۔
مارچ کے اختتام تک مزید 11 ریاستوں میں امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہو گا جہاں دو تہائی ڈیلیگیٹس ہیں۔ صدارتی نامزدگی ی دوڑ میں شامل جو بائیڈن اور برنی سینڈرز کی نظریں سترہ مارچ کو ریاست فلوریڈا میں ہونے والے انتخابات پر ہے جسے سوئنگ ریاست قرار دیا جا رہا ہے۔
سپر ٹیوزڈے
سب سے زیادہ ریاستوں میں پرائمری انتخابات کی وجہ سے مارچ کے پہلے منگل کو 'سپر ٹیوزڈے' کہا جاتا ہے۔ عام تاثر ہے کہ 'سپر ٹیوزڈے' کو کوئی ایک امیدوار زیادہ برتری حاصل کر لے تو باقی ریاستوں کے پرائمری انتخابات میں اسے شکست دینا مشکل ہوتا ہے۔
منگل کو جن ریاستوں میں ڈیموکریٹک پارٹی کے ووٹرز نے ووٹ ڈالے اُن میں ریاست الاباما، ٹیکساس، شمالی کیرولائنا، کیلی فورنیا، ٹینیسی، ورجینیا، آرکنسا، اوکلاہوما، کولوراڈو، میساچوسیٹس، یوٹا، منی سوٹا، ورمونٹ اور مئین شامل ہیں۔
اس کے علاوہ امریکن سموآ اور بیرون ملک ڈیموکریٹ ووٹرز نے بھی اپنے پسندیدہ امیدواروں کے حق میں ووٹ دیے۔
نیویارک کے سابق میئر مائیکل بلوم برگ نے 'سپر ٹیوزڈے' سے قبل اپنی انتخابی مہم پر لاکھوں ڈالرز خرچ کیے تھے۔ وہ صرف امریکن سموا سے کامیابی حاصل کر سکے ہیں۔
اسی طرح صدارتی نامزدگی حاصل کرنے کی دوڑ میں شامل ڈیموکریٹس رکن ایلزبتھ وارن نو، مائیکل بلوم برگ آٹھ اور تلسی گیبرڈ ایک ڈیلیگیٹس حاصل کر سکتی ہیں۔
یاد رہے کہ صدارتی امیدوار کا فیصلہ امریکہ کی 50 ریاستوں اور دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی سمیت سات دوسرے حلقوں میں پرائمری انتخابات کے بعد کیا جاتا ہے جو جون تک مختلف تاریخوں میں منعقد کیے جاتے ہیں۔ ہر ریاست میں ووٹوں کی بنیاد پر ڈیلیگیٹس جیتے جاتے ہیں۔
جولائی 2020 میں ڈیموکریٹک پارٹی کے کنونشن میں ڈیلیگیٹس ووٹ ڈالتے ہیں اور کامیاب امیدوار کو پارٹی کا صدارتی امیدوار نامزد کیا جاتا ہے۔
ایڈیسن ریسرچ کے ایگزٹ پولز کے مطابق کالجز کے طلبہ، عمر رسیدہ افراد اور افریقی امریکن نے بڑی تعداد میں جو بائیڈن کے حق میں ووٹ دیے جس کی وجہ سے وہ 14 ریاستوں میں سے کم از کم آٹھ ریاستوں میں کامیاب ہوئے۔
لاطینی امریکنز اور سفید فارم امریکنز کی بڑی تعداد نے برنی سینڈرز کے حق میں ووٹ دیے اور وہ مغربی ریاست کولوراڈو اور کیلی فورنیا میں کامیاب رہے۔
برنی سینڈرز نے حال ہی میں نیو ہیمپشر اور نیواڈا میں کامیابی حاصل کی تھی جب کہ آئیووا کاکس میں وہ پیٹ بٹیجج کے برابر تھے۔ بٹیجج صدارتی نامزدگی کی دوڑ سے علیحدہ ہو گئے ہیں اور انہوں نے سابق نائب صدر جو بائیڈن کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔